کراچی دھرنا اور قوم کی توقعات
ملک بھر میں جاری ٹارگٹ کلنگ اور بالخصوص کراچی میں آئے روز ہونے والی شیعہ کلنگ کیخلاف جمعہ کے روز نمائش چورنگی کراچی میں شروع ہونا والا کفن پوش دھرنا بالآخر کامیاب مذاکرات کے بعد اتوار کو فجر کی نماز کے بعد اختتام پذیر ہوگیا۔ شیعہ علماء کونسل سندھ کے جنرل سیکرٹری علامہ ناظر عباس تقوی نے جس حوصلے اور ہمت کیساتھ اس دھرنے کو کامیاب بنانے کیلئے شیعہ تنظیموں سے رابطے کیے اور شیعہ تنظیموں کی جانب سے جس انداز میں وحدت کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے، اس کم از کم گذشتہ اٹھارہ برسوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مجلس وحدت مسلمین، آئی ایس او، جے ایس او سمیت دیگر ملی تنظیموں، ماتمی سنگتوں اور علماء و ذاکرین سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں اس دھرنا میں شرکت کرکے ثابت کر دیا کہ وہ عزاداری امام حسین علیہ السلام کیخلاف
ہونے والی سازشوں کیخلاف نہ صرف ایک ہیں بلکہ اس کے دفاع کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے بھی آمادہ ہیں۔
ٹھٹھرتی راتوں، گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور کئی قسم کی دھمکیاں بھی حسینی عزم کے حامل افراد کے حوصلوں کو کمزور نہ کرسکیں۔ ایک
سیاسی تنظیم کے کارکنوں نے دھرنے کے اطراف میں گولیاں بھی چلائیں کہ شائد یہ دھرنا خوف کی وجہ ختم ہو جائے اور لوگ ڈر کر بھاگ جائیں، لیکن امام حسین علیہ السلام سے عہد کرکے آنے والے شیعہ جوانوں، ماتمی نوجوانوں اور خواتین کی تعداد اس کے برعکس بڑھتی گئی اور یوں آخری شب یہ تعداد کئی ہزاروں تک جا پہنچی۔
دھرنے کی خاص بات یہ تھی کہ پہلی بار ایم ڈبلیو ایم، آئی ایس او، شیعہ علماء کونسل اور جے ایس او کسی مشترکہ پروگرام میں شریک ہوئیں اور یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے درمیان اتنے بڑے اختلافات نہیں کہ جن کی بنیاد پر ہم اکٹھے نہ بیٹھ سکیں۔ علامہ ناظر عباس تقوی نے دھرنے کے اعلان کے بعد کہا تھا کہ وہ تمام تنظیموں اور شخصیات کے پاس جائیں گے اور انہیں دھرنے میں شرکت کی دعوت دیں گے۔ انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں دوٹوک انداز میں اعلان کیا تھا کہ یہ دھرنا کسی تنظیم یا شخصیت کیلئے نہیں بلکہ شیعیت کے دفاع اور عزاداری کے تحفظ کیلئے ہے۔ اس کے بعد وہ تمام تنظیموں کے پاس گئے اور انہیں دعوت بھی دی اور پھر تمام تنظیموں کی طرف سے کھلے دل کا مظاہرہ کیا گیا اور یقین دہانی کرائی گئی وہ نہ صرف دھرنے میں شریک ہوں گے بلکہ اس ’’کاز‘‘ کی بھی مکمل حمایت کرتے ہیں، جس کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یوں 14 دسمبر کو شروع ہونے والے اس عظیم الشان دھرنے نے ان طاقتوں کو مایوس کر دیا جو سوچ رہی تھیں کہ اہل تشیع کبھی بھی آپس میں مل نہیں بیٹھیں گے۔ لیکن جب اسٹیج پر علامہ صادق رضا تقوی، علامہ شہنشاہ نقوی، علامہ ناظر عباس تقوی، علامہ حسن ظفر، علامہ جعفر سبحانی، آئی ایس او کی نمائندگی سمیت سب تنظیمیں آپس میں مل کر بیٹھی تھیں تو اس وقت وحدت کی اس سے بڑی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ گورنر سندھ کی طرف سے جب یہ کہا گیا کہ وہ دھرنے کے علماء سے ملاقات کے لئے فقط چند منٹ کیلئے وقت نکال سکتے ہیں تو دھرنے میں شریک تمام علماء اور شرکاء نے اس کی مذمت کی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ دو منٹ والا گورنر ان علماء کو تقریباً تین گھنٹے سے زائد وقت دینے اور ان کے تحفظات سننے پر مجبور ہوگیا۔
یہاں مجلس وحدت مسلمین کے کردار کو نہ سراہا جائے تو میرے خیال میں زیادتی ہوگی۔ ایم ڈبلیو ایم نہ صرف دھرنے میں شریک رہی، بلکہ اسے کامیاب بنانے میں مکمل تعاون بھی کیا۔ مجلس وحدت مسلمین کے میڈیا سیل نے اس دھرنے کی دن رات ہونے والی کوریج کو دنیا بھر تک پہنچانے کیلئے بھرپور سعی کی اور یوں سب افراد کو سوشل میڈیا پر دھرنے سے متعلق ہونے والی ملکی و غیرملکی میڈیا کوریج دیکھنے کو ملی۔ دھرنے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ تمام تنظیمیں اپنے جھنڈوں کے بغیر شریک ہوئیں اور کسی نے بھی یہ تاثر دینے کی کوشش نہیں کی کہ وہ دھرنے کو ہائی جیک کرنا چاہتا ہے۔ سب نے اسے ملت تشیع کا عظیم اجتماع قرار دیا۔ اعتماد سازی کیلئے ایک کمیٹی بنا دی گئی تھی، جس میں تمام تنظیموں کی نمائندگی موجود تھی اور اسی کمیٹی نے گورنر سندھ سے مذاکرات کئے۔
ملی وحدت کے اس عظیم اجتماع کے بعد لوگوں کی قائدین سے امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جہاں اس وحدت کو سراہا جا رہا ہے، وہیں یہ بھی امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ وحدت کا یہ سفر جاری و ساری رہے اور مرکزی سطح پر بھی انہیں اس طرح کی کاوشیں دیکھنے کو ملیں۔ راقم کی دھرنے سے چند روز پہلے جب ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات ہوئی اور ان سے استفسار کیا کہ کیا ایم ڈبلیو ایم کراچی میں ہونے والے دھرنے کو سپورٹ کریگی؟ تو اس پر انہ
وں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ایم ڈبلیو ایم نہ صرف اس دھرنے میں شرکت کرے گی بلکہ اسے کامیاب بنانے میں بھرپور کردار ادا کریگی۔ جب راقم نے ان سے سوال کیا کہ کیا ایم ڈبلیو ایم تیرہ جنوری کو لیاقت باغ میں ہونے والے شہداء کے چہلم کے اجتماع میں شیعہ علماء کونسل کو دعوت دیگی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں بذات خود علامہ سید ساجد علی نقوی سے ملنے کے خواہش مند ہیں اور وہ خود انہیں اس پروگرام کی دعوت دیں گے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ملت تشیع کے مسائل کا واحد حل فقط اور فقط وحدت میں ہی مضمر ہے، اگر ہم ایک ہوں گے تو ہماری بات سنی بھی جائیگی اور مانی بھی جائیگی، ورنہ قوم تقسیم در تقسیم ہوگی اور اس کا فائدہ صرف باطل قوتوں کو ہی ہوگا، ماضی کی تلخیوں کو بھلا دینا چاہیے اور مستقبل کی طرف اپنی نگاہیں مرکوز رکھنی چاہیں۔ ہمیشہ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں، جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں، جو قومیں غلطیوں پر غلطیاں کرتی ہیں، اللہ ان کی مدد نہیں کرتا اور وہ مٹ جایا کرتیں ہیں۔ لہٰذا کراچی سے شروع ہونیوالے وحدت کے اس سفر کو اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہنا چاہیے۔ قوم کو امید رکھنی چاہیے کہ انشاءاللہ لیاقت باغ کے تاریخی باغ میں دنیا کو ایک تاریخی پیغام جائیگا۔