ضرور پڑھیئے اور جانئے کہ شیعیان حیدر کرار (ع) نے احتجاجی دھرنے سے کیا حاصل کیا؟
قائد اعظم محمد علی جناح (رح) کے مزار سے چند قدم کے فاصلے پر نمائش چورنگی کے مقام پر، موسم سرما کی سخت ترین سرد راتوں اور دنوں کے باوجود ہزاروں شیعیان حیدر کرار (ع) بشمول خواتین و معصوم بچوں کی شرکت،حکومت پر دباؤ ڈالنے کے تاریخی احتجاجی دھرنا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف عملی اقدامات کئے جائیں۔
تاریخی احتجاجی دھرنے میں شریک سیاہ لباس میں ہزاروں عزاداران امام حسین علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں میں علم حضرت عباس علیہ السلام اٹھا رکھے تھے،ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈز تھے جن پر لبیک یا حسین علیہ السلام کے نعرے درج تھے۔مزار قائد کے گرد ونواح لبیک یا حسین علیہ السلام کے نعروں سے گونج رہے تھے۔یہ تاریخی اور احتجاجی دھرنا 39گھنٹوں تک جاری رہا اور آخر کار حکومت مجبور ہو کر مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ ہوئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ،شیعیان حیدر کرار (ع) نے جو چاہا وہ حاصل کیا۔انہوں نے اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔اپنی بھرپور طاقت کا اظہار کیا۔انہوں نے کراچی کے نمائش چورنگی کو مصر کے تحریر اسکوائر میں بدل کر رکھ دیا۔شیعہ علماء کونسل پاکستان نے احتجاجی دھرنے کی اپیل کی تھی تاہم بعد میں تمام شیعہ جماعتوں کے لئے راستے کھول دئیے تا کہ سب جمع ہو کر شریک ہوں۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان،امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن،پاسبان عزاء اور جعفریہ لیگل ایڈ کمیٹی سمیت دیگر تنظیمیں بھی شریک ہوئیں۔
قانون کا احترام کرنے والے شیعیان حیدر کرار (ع) نے اپنی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے انتہائی پر امن اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جبکہ شیعہ نسل کشی پر شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔جمعہ کے روز سے شروع ہونے والے39گھنٹوں پر مبنی احتجاجی دھرنے میں کسی قسم کا کوئی جانی ومالی نقصان نہیں ہوا۔
احتجاجی دھرنے میں شریک ایک درمیانی عمر کے عزادارِ امام حسین علیہ السلام نے کہا کہ ،’’ہم جانتے ہیں ہمارا قاتل کون ہے؟ہمارے قاتل تنہا ناصبی اور تکفیری دہشت گرد نہیں بلکہ ان کے ساتھ کچھ اور گروہ بھی شامل ہیں‘‘۔
احتجاجی دھرنے کے دوران شیعیان حیدر کرار (ع) کی جانب سے بلند ہونے والا شعار لبیک یا حسین علیہ السلام اور لبیک یا مہدی عج فرجہ فضاؤں میں گونجتا رہا۔
احتجاجی دھرنے میں شریک ایک نوجوان اسد کاظمی نے کہا کہ ہم اسلام ناب محمدی (ص) پر عمل پیرا رہیں گے اور اہل بیت علیہم السلام کے دامن سے متمسک رہیں گے خواہ زمانے کے حالات کچھ بھی ہوں۔
احتجاجی دھرنے کے شرکاء انتہائی منظم تھے جبکہ احتجاجی دھرنے میں ماؤں کی گودوں میں شیر خوار بچے بھی دیکھنے میں آئے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ اسلام پر وقت آن پڑے تو سیرت حضرت علی اصغر علیہ السلام پر عمل کیا جاتا ہے۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب اسلام پر وقت آن پڑا تو امام حسین علیہ السلام اپنے شش ماہا بچے حضرت علی اصغر علیہ السلا م کو میدان جنگ میں ساتھ لے گئے تھے۔ہمارے سامنے نوجوانوں کے لئے امام حسین علیہ السلام کے نوجوان فرزند حضرت علی اکبر علیہ السلام کی سیرت مبارکہ ہے جبکہ خواہران کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کی دختر سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور آپ (س) کی دختر سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی سیرت مبارکہ ہے۔
مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ نا انصافی اور ظلم کے خلاف کس طرح جواب دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ شہر کراچی میں شیعہ تنظیموں سے منسلک شیعہ افراد سے کہی زیادہ تعداد میں عام شیعہ عزادار موجود تھے جن کا کسی بھی تنظیم یا گروہ سے تعلق نہیں تھا۔
ایک شیعہ خاتون نے احتجاجی دھرنے کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شہر کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت کے وقت میں ناصبی تکفیری دہشت گرد شیعہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا رہے ہیں؟میرے لئے حیرت کی بات ہے کہ متحد ہ قومی موومنت حکومت میں ہونے کے باوجود اس مسئلہ کے حل تک نہیں پہنچ سکی۔
احتجاجی دھرنے میں ہزاروں لوگ موجود تھے جن کے خیالات او ر تاثرات ملتے جلتے پائے جاتے تھے اور وہ کالعدم دہشت گرد تکفیری ناصبی گروہوں کی جانب سے ملت جعفریہ کی نسل کشی کے خلاف سخت احتجاج کر رہے تھے اور شدید غم وغصے کا اظہار بھی کر رہے تھے۔
کراچی کی تاریخ میں شیعیان حیدر کرار (ع) کا یہ دوسرا بڑا تاریخی احتجاجی دھرنا تھا۔پہلا احتجاجی دھرنا معروف شیعہ رہنما اور لیگل ایڈ کمیٹی کے انچارج شہید عسکری رضا کی شہادت کے بعد انچولی سے شروع ہونیو الا تاریخی سفر تھا جو کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرتا ہوا ایم اے جناح روڈ اور گورنر ہاؤس پہنچا تھا ۔اس تاریخی احتجاجی مارچ اور دھرنے میں کراچی بھر سے ہزاروں شیعیان حیدر کرار (ع) جمع ہوئے تھے اور گورنر ہاؤس کے باہر احتجاجی دھرنے میں شرکت کر کے نئے سال کی آمد کو خیر باد کہتے ہوئے اپنے شہید کے لہو پر آنسو بہا رہے تھے۔
دسمبر 2012میں ایک مرتبہ پھر شیعہ قوم متحد ہو کر نمائش چورنگی پر جمع ہوئی اور شیعہ رہنماؤں پر اعتماد کا اظہار کیا جس پر تمام شیعہ رہنماؤں میں وحدت و یکجہتی دیکھنے میں آئی۔احتجاجی دھرنے میں مولانا حسن صلاح الدین ،علامہ مرزا یوسف،علامہ حسن ظفر نقوی،علامہ علی مرتضی زیدی،مولانا صادق رضا تقوی،علامہ جوفر سبحانی،ایس ایم حیدر،سید تصور حسین ایڈووکیٹ اور دیگر شریک تھے۔
39شیعہ سیاسی تجزیہ نگار
آئی علی کے مطابق گھنٹوں تک جاری رہنے والے عظیم الشان احتجاجی دھرنے کے بعد وفاقی حکومت کے نمائندے گورنر سندھ نے شیعہ رہنماؤں سے مذاکرات کئے اور ان کو واضح طور پر کہا کہ شیعہ قوم کے مطالبات کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔شیعہ ملت نے احتجاجی دھرنے سے جہاں اپنے مطالبات تسلیم کروائے وہاں اس سے بڑھ کر ملت میں یکجہتی اور طاقت کو مضبوط کیا۔