وزیرِ داخلہ رحمان ملک: ’پنجاب لشکرِ جھنگوی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتا‘
پاکستان کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ جس دن پنجاب حکومت شدت پسند کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کے خلاف کارروائی کرے گی تو ملک میں دہشتگردی نوے فیصد کم ہو جائے گی۔
انہوں نے کراچی میں پیر کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لشکرِ جھنگوی کا ہیڈکوارٹر پنجاب میں ہے تو اسے بند کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور ان کے تین چار اہم رہنما ہیں جن کے پیچھے ہم لگے ہوئے ہیں۔ اگر یہ پکڑے جاتے ہیں تو کراچی سمیت دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کم ہو جائے گی۔
کراچی کے عباس ٹاؤن میں اتوار کو ہونے والے بم دھماکے کے پسِ منظر میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ لشکرِ جھنگوی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے قریب ہیں لیکن ’جہاں سیاسی بنیادوں پر اگر اس خاص طبقے کی پشت پناہی ہو تو پھر خدا ہی ہمارا حافظ ہے۔‘
انہوں نے پنجاب حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ملک اسحٰق کو میرے حوالے کرنا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے ملک اسحٰق پر بنائے گئے 34 مقدمات کی بات تو کریں۔‘
رحمان ملک نے پنجاب حکومت پر الزام لگایا کہ ’اسے گرفتار کر کے آپ کا خود پولیس ایس پی کیس میں پیش نہیں ہوا۔ وہ پیش ہوتا اور آپ ان کو جیل میں رکھتے تو لوگوں کو سکون ہوتا کہ آپ نے ایک دہشت گرد اور ایک دہشت گرد تنظیم کے خلاف کارروائی کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ بم دھماکے میں استعمال ہونے والا مواد بھی لشکرِ جھنگوی نے پنجاب سے خریدا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پنجاب حکومت نے اس وقت کیوں کارروائی نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور کراچی بم دھماکوں میں مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ ایک ہی گروپ کا کام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ واقعات نہیں ہیں بلکہ کالعدم تنظیموں لشکرِ جھنگوی اور تحریکِ طالبان نے کہا ہے کہ وہ انتخابات نہیں ہونے دیں گے اور انہوں نے یہ کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور اب ہمیں پنجاب حکومت کا کردار دیکھنا ہے کہ وہ کتنے دہشت گردوں کو پکڑتی ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا بہت ضروری ہے اور میں یہاں جتنے بھی لشکرِ جھنگوی اور دوسرے کالعدم تنظیموں کے دفاتر ہیں ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیتا ہوں کیونکہ قوم اسے زیادہ برداشت نہیں کر سکتی۔
جب رحمان ملک سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے پانچ سالہ اقتدار کے دوران ملک میں امن قائم کرنے میں ناکامی کو کیوں قبول نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد امن وامان قائم رکھنا صوبائی حکومت کا کام ہے ’تاہم میں لاجسٹکس اور انٹیلیجنس دے رہا ہوں۔ آج بھی میں پہنچا ہوں اور آئندہ بھی پہنچوں گا۔‘
انہوں نے حکومت کی سکیورٹی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’کیا کراچی ، کوئٹہ اور خبیر پختون خوا کے کچھ علاقوں کے علاوہ ملک میں امن آیا ہے کہ نہیں؟ ملک میں امن لانے کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کو دیں۔‘
وفاقی وزیرِ داخلہ نے کراچی بم دھماکے کی طرف شارہ کرتے ہوئے کہا کہ’یہاں کا جو معاملہ ہے تو میں نے تین مہینے پہلے کہا تھا کہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گردی ہوگی۔اس وقت سب نے کہا کہ یہ لوگوں کو ڈرا رہا ہوں اور مذاق کر رہا۔ آب سب کو اندازہ ہو گیا ہوگا۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر مجھے کوئی تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو بنائے، جب میرے پاس انٹیلیجنس ہوگی تو کسی کی پروا کیے بغیر میں اسے منظرِ عام پر لاؤں گا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ بد دیانتی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے صرف اس بات کی پروا ہے کہ معلومات قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام تک پہنچنی چاہیئیں۔