پاکستانی شیعہ خبریں

کمشنر کراچی ہاشم رضا ،ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد اور دیگر کا خانوادۂ شہداء عباس ٹاؤن سے غیر اخلاقی رویہ قابل مذمت ہے ، مجلس و حدت مسلمین کراچی

pc mwmشیعت نیوز کے نمائندے کے مطابق سانحہ عباس ٹاؤن میں 52افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ 180 سے زائد زخمی ہیں اور 70سے زیادہ گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ۔سانحہ عباس ٹاؤن صدر پاکستان کے اعلان کے باوجودشہداء کے ورثہ کو امدادی رقم نہیں دی گئی ۔ کمشنر کراچی ہاشم رضا زیدی،ایڈشنل کمیشنر ڈاکٹر منصور،ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد ،اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر محمد علی شاہ سانحہ کے شہداء میں دی جانے والی امداد میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور کمیٹی کے اراکین کو مختلف ذرائع سے دھمکیاں دینے اور ہراساں کرنے کرناقابل مذمت اور شرمناک فعل ہے۔ان خیالات کا ظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی کے رہنماء علامہ صادق رضا تقوی نے سانحہ عباس ٹاؤن کے حوالے سے پریس کلب میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں کیاکانفرس میں علامہ حیدر عباس،علاماہ عقیل موسیٰ،علامہ محمد حسین کریمی ،علامہ باقر زیدی ،مولانا علی افضال ،علامہ علی انور ،اصغر زیدی سمیت دیگر موجود تھے ۔علامہ صادق رضا تقوی کا کہنا تھا کہ کراچی قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہوگئے رینجرز کے ہاتھوں بے گناہ شیعہ افراد کو گرفتار ی کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ حکومت سانحہ عباس ٹاؤن میں ملوث اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کرے ۔سیاسی دباؤ پر ملت جعفریہ کے نوجوانوں پر جھوٹے مقدمے بنائے جارہے ہیں سانحہ عباس ٹاؤن تباہ شدہ گھروں کے باسی مختلف این جی اوز او ر ملت جعفریہ کی قومی وملی تنظیموں کے تعاون سے دوسرے مقامات پر منتقل کئے جا چکے ہیں لیکن صدر پاکستان کی طرف سے شہداء اور تباہ شدہ گھروں کے مالکان کے لئے نئے فلیٹ دئیے جانے کے اعلا ن پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی جانب سے متعین کردہ ریلیف کمیٹی نے اپنی تمام تر سفارشات اور کاغزی کاروائی مکمل کر لی ہے تاہم یہ معاملہ سست روی کا شکار ہے۔حکومت کی طرف سے سانحہ کے متاثرین کے لئے اعلان کی جانے والی امدادی رقوم کی منتقلی میں کراچی کی بیورو کریسی جس میں کمشنر کراچی ہاشم رضا زیدی،ایڈشنل کمیشنر ڈاکٹر منصور،ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد ،اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر محمد علی شاہ شامل ہیں،مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے متعین کردہ کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔جبکہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور کمیٹی کے اراکین کو مختلف ذرائع سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کو ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے جو کہ ایک قابل مذمت ہے۔بیوروکریسی عوام کو سہولتیں میسر کرنے کی بجائے ان کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرر ہی ہے جبکہ سانحہ عباس ٹاؤن کے زخمیوں اور متاثرین کو کمشنر آفس اور ڈپٹی کمشنر ملیر آفس میں گھنٹوں گھنٹوں انتطار کروانے کے بعد دھتکار کر گھر بھیج دینے کی مسلسل شکایات موصول ہو رہی ہیں۔اسی طرح حکومت کی طرف سے قائم کرد ہ کمیٹی جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں فیصل رضا عابدی اور شہلا رضا کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی اس کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کیا جا رہا۔عوام اور پاکستا ن کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور بالخصوص حکومت کو یہ بات بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر بیوروکریسی بشمول کمشنر کراچی ،ڈپٹی کمشنر ملیر اور ایڈشنل کمیشنر کراچی نے ہمارے کارکنوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا اور اگر ہمارے کسی ایک کارکن کو بھی نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ داری کمشر کراچی ،ایڈشنل کمشنر کراچی او ر ڈپٹی کمشنر ملیر پر عائد ہو گی۔سانحہ کے متاثرین کمشنر کراچی کے رویہ کی شدید مذمت کرتے ہیں کہ جس کے باعث شہداء اور زخمیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔50 سے زائد ایسے زخمی افراد کی فہرست بھی موجود ہے کہ جن کا نام کمشنر کراچی نے اپنی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا ہے اگر سانحہ کے متاثرین کی امداد میں رکاوٹوں کا سلسلہ کو بند نہ کروایا گیاتو حالات کی سنگینی کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔ہم صدر پاکستان آصف علی زرداری ،وزیر اعظم پاکستان ،چیف جسٹس آف پاکستان اور افواج پاکستان کے سربراہ جنرل کیانی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہر کراچی کو امن کا گہوارہ بنائے اور شہر میں بے گناہ نوجوانوں کے اغوا اور ان کو بلا جواز مقدمات میں ملوث کرنے کی گھناؤنی سازشوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سانحہ کے شہداء اور زخمیوں سمیت متاثرین کو جلد از جلد ریلیف دینے کے لئے احکامات جاری کریں اور بیوروکریسی میں شامل کالی بھیڑوں کو جو ریلیف کی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں ان کے خلاف سخت کاروائی کریں ۔ شہید ہونے والے افراد کے ورثاء کو جلد از جلد معاوضہ کی رقم ادا کی جائے ۔واضح رہے کہ حکومتی سطح پر قائم ہونے والی کمیٹی نے قانونی کاروائی مکمل کر لی ہے البتہ بیوروکریسی اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button