شہداء کا خون رائیگان نہیں جاتا
کوئٹہ سرخ ہے، بےگناہوں کے اس خون سے جسے اس بیدردی سے بہایا جا رہا ہے کہ اموی، عباسی، چنگیزی اور ہلاکو خان کے ادوار کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کی اسلام دشمنی کی تاریخ خونی صفحوں سے بھری پڑی ہے کہ جب کبھی اسکے مطالعے کا موقع ملا تو چند سطور پڑھ کر جھرجھری آجاتی جو فوراً کتاب کو بند کرنے پر مجبور کر دیتی۔ لیکن آج قسمت نے ماضی کے ان صفحات پر درج کہانیوں کو جیتی جاگتی حقیقت کے طور پر یوں آنکھوں کے سامنے لاکر پیش کیا ہے، اب نہ خوف کی جھرجھری آتی ہے اور نہ ہی ان ادوار کی مشکلات کا تصور کرنا مشکل رہتا ہے۔ سرزمینِ پاکستان پر بہنے والے خون نے ماضی کے تمام ادوار کے ظلم و ستم اور انکی وجوہات یکسر سمجھا کر رکھ دی ہیں۔ یہ بات اب عیاں ہوچکی ہے کہ اسلام کی حقیقت کیا تھی کہ جس سے کلمہ گوئی کا ناٹک کرنے والا منافق کس قدر خوفزدہ تھا۔
خدا کے اصلی اور خالص نظام کا رواج نہ دورِ رسولِ اکرم (ص) کے منافق کو منظور تھا اور نہ ہی آج کے منافق کو۔ کاغذ، قلم، سخن، بیداری، عدل، انصاف، مساوات، حلم اور برداشت ۔۔۔ کیا لینا دینا ان منافقین کا ان خدائی عوامل اور ان کے نفاذ کے اوزار سے کہ جن کا طرہء امتیاز ہی شیطانی غیظ و غضب اور غصہ رہا ہے۔ کفار سامنے ہوں تو پیٹھ دکھا کر بھاگنا اور جہاں پسے ہوئے مظلوم ہوں، وہاں آنکھوں اور زبان سے آگ اگلنا اور ہاتھوں سے تلواروں کے وار کرنا ہر دور کے منافق کا طریقہء واردات رہا ہے۔ چنانچہ حیاتِ رسول ِ اکرم (ص) میں آپ کی نافرمانی کا مرحلہ ہو یا آپ کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد کے مراحل ہوں، اس دور سے لیکر آج تک کلمہ گو منافقین کا طرزِ عمل یکساں ہے۔ آج بھی یہ دشمنِ خدا علم، کاغذ، قلم، سنتِ نبوی اور ذکرِ اہلبیت (ع) کا دشمن ہے اور جہاں جہاں اسے رسول و آلِ رسول (ص) کے آثار نظر آتے ہیں، اسکی رگوں میں شیطان دوڑ اٹھتا ہے، جو دینِ خدا کے معصوم پیروکاروں کی رگیں کاٹ کر انکے خون سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔
آج جہاں پاکستان کا چپہ چپہ خونِ محبانِ اہلبیت (ع) سے رنگین ہے، وہاں کوئٹہ سرخ تر ہے کہ یہاں باقی ملک کی طرح ایک دو افراد نہیں بلکہ بیسیوں مؤمنین کو اپنی ہوسِ لہو کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن اب بیسیوں بھی نہیں، بات سینکڑوں میں جاچکی ہے۔ منافق کا یہ سمجھنا کہ وہ مؤمنین کو شہید کرکے انکی تعداد کو کم اور صدائے حق کو دبا لے گا، ایک احمقانہ سوچ ہے۔ دراصل شہیدوں کے لہو کے یہ فوارے خوابیدہ ملت کی بیداری کے لئے چھینٹے ہیں کہ جن کو اپنے چہرے پر پڑتا پاکر اس ملت کے جوان نئے حوصلے سے اپنے پیاروں کی لاشوں کو کاندھا دے کر اس ذکرِ حق کو مزید گرج کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اس لہو کی خوشبو کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتار کر خود بھی آمادہء شہادت ہو جاتے ہیں۔
باطل کی اس سے زیادہ شرمناک شکست کیا ہوگی کہ جس ذکر کو ختم کرنے کی خاطر یہ ذکر کرنیوالوں کا خون بہاتا ہے، وہ ذکر اتنا ہی بلندی و وسعت کا حامل ہوتا جاتا ہے۔ ایک گھر میں ایک شہید۔۔۔۔ اس کے جنازے میں ہزاروں شریک۔۔۔ ہر ایک کی زبان پر یاحسین ۔۔۔۔۔۔ دو دن بعد اس کا سوئم۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سے ہزاروں عزاداران شریک۔۔۔۔۔۔ ہر ایک کی زبان پر یاحسین۔۔۔۔۔۔۔ ایک سو شہداء۔۔۔۔۔۔۔۔ جنازوں میں کئی ہزار عزاداران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی ہزار روح کی بلندیوں سے پکارتے ہوئے یاحسین۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سو شہداء کے سوئم، چہلم، برسیاں، تعزیتی اجلاس، سیمینار، محافل و مجالس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ ہر زبان پر یاحسین یاحسین۔۔۔۔۔۔۔ اتنی عبرتناک شکست کہ جتنا کسی شے کو ختم کرنے کے جتن کئے جائیں، جواباً اس میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے! یہ دراصل خدائی انتظامات ہیں، جن میں شیطان مکمل طور پر ناکام ہے۔
کوئٹہ کے شہداء تو سرخ رو ہو کر اپنا مقصدِ حیات پاگئے۔ رہ گئے ہم۔ تو بفضلِ خدا و بنگاہِ معصومین (ع) ہماری راہ اور ہماری منزل بھی متعین ہے۔ خدا ہمارا شمار بھی شہداء میں فرمائے، تاکہ موت ہمارے لئے باعثِ زیارتِ شہدائے کربلا بن جائے اور ہمارا اگلے جہان میں پہلا قدم اپنے آقایان کی قدم بوسی قرار پائے۔ آمین۔ لیکن یہاں چند کرداروں کا کردار لائقِ سوال ہے۔ اس ملک کی حکومت، انتظامیہ اور عدلیہ کہ جنہیں خدا نے قوت، اختیار اور وسائل وافر فراہم کئے تھے، انکا انہوں نے کیا استعمال کیا! کہیں کسی کو کسی دریا کے کنارے مرنے والے کسی جانور کی بھی فکر کھائے جاتی تھی اور آج اسی کے نام کی مالا جپنے والوں کے دورِ اقتدار میں جانور نہیں انسان مر رہے ہیں۔ بلکہ مر نہیں رہے، مارے جا رہے ہیں۔ قاتلوں کو قتل کرنے کی راہ ہموار کرنے والی انتظامیہ اس خدا کو کیا منہ دکھائے گی کہ جس سے ملاقات کا انہیں یقین ہی نہیں؟ قاتلین کو باعزت بری کرکے دندنانے کے اجازت نامے تھمانے والی عدلیہ جب خدا کی عدلیہ کے کٹہرے میں کھڑی ہوگی اور ان بے گناہ شہداء کا مقدمہ چلے گا تو قرآن پر حلف لینے والے ان کاذبین کا کیا انجام ہوگا؟؟؟ لیکن یہ تو اگلے جہان کی باتیں ہیں۔
عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
شہداء کا خون رائیگان نہیں جاتا بلکہ بچ جانیوالوں اور اگلی نسلوں کے لئے حیات بخش چراغ روشن کرتا ہے۔ آج یہ شہداء جن قبور کے دروازوں کے ذریعے جنتِ فردوس میں جا پہنچے ہیں، وہاں سے پسماندگان کے لئے فیوض و برکات بہم پہنچانے کا ذریعہ بن جائیں گے
۔ شہداء کے اس بہہ جانے والے خون کی مہک اگلی نسلوں کی حسینی تربیت کرتی رہیگی اور حکومت، انتظامیہ، عدلیہ اور دہشت گرد کل اسی خون کی سرخی اور خوشبو سے دہشت زدہ ہوکر خدا کے بدترین عذاب کا شکار ہوجائیں گے۔ انشاءاللہ