ڈاکٹر صاحب! آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی 18ویں برسی کی مناسبت سے خصوصی تحریر
موت ایک اٹل و ناقابل انکار حقیقت ہے، جس کا ذائقہ ہر ذی روح کو بہرحال چکھنا ہے۔ ہم سے پہلے نہ جانے کتنے لوگ اس سلسلہء حقیقت سے دوچار ہوچکے اور ہمارے سامنے بھی ان گنت لوگوں نے اس کا ذائقہ چکھا اور ہم سے جدا ہوگئے، ہمارے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہیگا۔ موت سے مفر ممکن نہیں، فرشتہ اجل جب پیغام اجل لیکر آجاتا ہے تو ہم نے اسے لبیک کہنا ہوتا ہے، کسی کی مجال اور ہمت نہیں کہ اس سے انکار کرے یا بھاگ کھڑا ہو۔ ہاں اس حوالے سے یہ ضرور ہے کہ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے شاہراہ زیست پر انسان اپنے لئے سلیقہ زندگی منتخب کرے اور جس طرح سلیقہء زندگی کا انتخاب یعنی جینے کا سلیقہ منتخب کیا جاتا ہے، اسی طرح مرنے کا ڈھنگ بھی منتخب کر سکتا ہے۔ جس طرح جینے کا انداز چنا جاتا ہے، اسی طرح مرنے کا انتخاب بھی چنا جاسکتا ہے۔
انسان کی زندگی اگر خدا کی طرف سفر اور لقاء اللہ کے حصول کیلئے ہو، خدا کی مخلوق کی خدمت اور فلاح کیلئے ہو، معاشرہ سازی کیلئے انسان کے شب و روز گذرتے ہوں تو موت کیطرف سفر بھی خدا کی راہ میں، خدا کے قرب کے حصول کیلئے اور مخلوق خدا کی خدمت کیلئے، انسان اگر موت کو گلے لگائے اور پیغام اجل کو لبیک کہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت و خوشبختی ہوسکتی ہے۔؟ جس طرح مختلف انسانوں میں فرق ہوتا ہے، اسی طرح اموات میں بھی فرق ہوتا ہے، سب سے برتر موت شہادت کی موت ہے، بلاشبہ شہادت کی موت سعادت کی موت ہے، یہ بلند مرتبہ موت ہے، جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ اس مقام پر ہوتے ہیں کہ شہادت ان کا انتخاب کرتی ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی ایک ایسی ہی ہستی کا نام ہے، جن کا انتخاب شہادت نے آج سے 18 بر س پہلے 7 مارچ 1995ء کی صبح کیا تھا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسی عظیم شخصیت کو یہی زیبا تھا کہ وہ قبائے سرخ شہادت زیبِ تن کرکے داعی اجل کو لبیک کہتے، ان کی زندگی بھی بے مثال تھی اور موت بھی بے مثل!
عمومی طور پر جب ہم سے ہمارا کوئی پیارا جدا ہو جاتا ہے تو اس کی یادیں ہمارا سرمایہ بن جاتی ہیں، اس پیارے سے وابستہ ہر چیز کو دیکھ کر ہم تڑپتے ہیں، ہم اس کی یاد میں مارے مارے پھرتے ہیں، ہم اس سے وابستہ لمحات، واقعات، کردار، گفتار، باتوں اور خیالات و افکار کو بار بار تذکر دیتے ہیں اور مثالیں بنا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شہید کی فعال، متحرک تنظیمی و اجتماعی زندگی کا ہر لحظہ ہماری یادوں میں محفوظ ہے۔ ان سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کی یادوں کے چراغ جلائے رکھیں، اس کی لو کو ماند نہ پڑنے دیں، کیا ہم شہید کو کہہ سکتے ہیں؟
کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں۔
جب ہم لاہور جاتے ہیں۔
جب یتیم خانہ چوک آتا ہے۔
جب بھلا اسٹاپ پر حسین اسٹریٹ آتی ہے۔
جب شیخ زائد ہسپتال میں جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب ہم آپ کے خوابوں کی عملی تعبیر المصطفٰے ہاؤس مسلم ٹاؤن موڑ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب ہم امامیہ نوجوانوں کے کسی پروگرام میں جاتے ہیں اور ہماری نگاہیں آپ کو تلاش کے باوجود نہیں دیکھ پاتیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب ملک میں ہر سو قتل و غارت اور شیعیان حیدر کرار کا خون بہایا جاتا ہے اور ہم چاروں طرف نگاہ اٹھاتے ہیں اور ہمیں کوئی محرم علی و علی ناصر صفوی دکھائی نہیں دیتا۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب ہم امریکہ کو ارض وطن میں کھل کھیلنے اور آزادی سے اس ملک کی جڑیں کھوکھلا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب بھی کسی یوم القدس کے مظاہرے میں امریکہ و اسرائیل کے پرچموں سے نفرت کا اظہار انہیں نذر آتش کر کے کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب بھی تنظیمی وسائل کی بہتات کے باوجود نتائج صفر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب تنظیمی دفاتر میں دال کی جگہ مرغ مسلم اور رنگ برنگے کھانوں کی بہار دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب مال امام کی غیر منصفانہ تقسیم اور اقرباء پروری کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب ہم دیکھتے ہیں کہ مخلصین کھڈے لائن اور ابن الوقت چھائے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب اسیران کے بچوں کو بے دست و پا دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب ہمیں شہداء کے خانوادوں کے چہروں پر ملال اور دکھ دکھائی دیتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب تعلیم کے حصول کے قابل و مستحق طلباء مارے مارے پھرتے ہیں اور ان کے مسائل دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب بے گناہ کارکنان پکڑے جاتے ہیں اور ان کو چھڑانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب تنظیمی سینئرز سستی کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور ان میں بعض وہ بزرگان بھی شریک ہوتے ہیں، جنکا نام ڈاکٹر شہید نے اپنے دوستوں کی فہرست میں بھی دیا تھا، تاکہ ان کی شہادت کے بعد ان سے رجوع کیا جائے۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت یاد آتے ہیں، جب ہمیں کوئی کامیابی ملتی ہے اور ہمارے ملی وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بہت
یاد آتے ہیں، جب کوئی انقلاب کا نعرہ لگاتا ہے، جب کوئی آپ کا ہمعصر و دوست ملتا ہے