لشکر جھنگوی کے ٹھکانے پنجاب میں ہیں، نواز حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ شیریں مزاری
مختلف سیاسی جماعتوں نے کوئٹہ میں ہزارہ اہل تشیع کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنانے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ محض مذمتی بیانات دینے سے معاملات حل نہیں ہوں گے بلکہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کی زیادہ تر ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء صابر علی بلوچ نے بی بی سی سے بات چیت میں موجودہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ ملک میں امن و امان کی بحالی اُن کی اولین ترجیحات میں سے ہے، لیکن اس جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد شدت پسندی کے واقعات میں کمی آنے کی بجائے اُس میں اضافہ ہوا ہے۔ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومِت وقت کو فوج، متاثرہ ہزارہ برادری اور دوسرے اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ صوبے کی سیاست سے فوج کے کردار کو کسی طور پر بھی کم نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ہزارہ برادری پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔ اس تنظیم کے ٹھکانے صوبہ پنجاب میں ہیں اور وفاق اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے تو پھر وہ اُن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ پاکستان تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت وقت کو برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کے ساتھ بھی بات کرنی چاہیے کہ اُنہوں نے پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں ملوث بلوچوں کو کیوں اپنے ملکوں میں پناہ دی ہوئی ہے۔ شریں مزاری نے کہا کہ ممالک بلوچ بھگوڑوں کو مالی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں سابق حکمراں اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی اس صوبے میں اتنی عمل دراری نہیں ہے۔ صوبے میں حکومتیں دکھانے کی ہیں اور اس صوبے میں فوج اور اُس کے خفیہ ادارے سب سے زیادہ بااختیار ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ حساس ادارے منتخب حکومتوں کو کام کرنے کا موقع دیں۔ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مشاہد اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی جماعت کو یہ تمام مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے پُرعزم ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کی حکومت شورش زدہ علاقوں میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گی۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومتی ادارے جلد بیٹھ کر اس بارے میں حکمت عملی تیار کرلیں گی۔ یاد رہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئٹہ شہر جہاں پر سب سے زیادہ سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے اہلکار تعینات ہیں، لیکن اس کے باوجود وہاں پر شدت پسندی کے واقعات ہونا بظاہر سکیورٹی اور خفیہ اداروں میں تعاون کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔