مصر میں فوجی آمریت کو خوش آمدید کہنے والے مسلم حکمرانوں کی مذمت کرتے ہیں، ملی یکجہتی کونسل
ملی یکجہتی کونسل پاکستان، مصر میں فوج کی جانب سے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی منتخب اور آئینی حکومت کو برطرف کرنے اور آئین کو معطل کرنے کے اقدامات کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پرامن مظاہرین پر مصری فوج کی فائرنگ بربریت کی بدترین مثال ہے جس میں بچوں، خواتین اور بوڑھوں سمیت 51 افراد شہید ہوگئے۔ حالت نماز میں خود اپنے ہی عوام پر فائرنگ کرنے سے فوجی ڈکٹیٹروں کا اصل چہرہ سامنے آگیا ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران ایک سو سے زائد عام شہری شہید ہوئے ہیں، ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اخوان المسلمون کے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کیا گیا، ملک کے منتخب صدر کو غیرقانونی حراست میں رکھا گیا، الجزیرہ سمیت بہت سے ٹی وی چینلز کو بند کیا گیا اور میڈیا پر پابندیاں عائد کی گئیں، تاکہ غیرآئینی حکومت اپنے جرائم کو چھپا سکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصر کو واپس انور سادات اور حسنی مبارک کے تاریک دور کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ملی یکجتی کونسل کے رہنماء علامہ محمد امین شہیدی، ثاقب اکبر، آصف لقمان قاضی، میاں محمد اسلم اور دیگر رہنماؤں نے پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاموش تماشائی بننے کے بجائے مصر کی آئینی اور منتخب حکومت کی کھل کر حمایت کرے اور فوجی آمریت اور فسطائیت کو مسترد کر دے۔ مصر کے عوام نے قیمتی جانوں کی قربانی دے کر مصر کو امریکہ اور اسرائیل نواز آمریت سے نجات دلائی تھی۔ صدر مرسی کی حکومت گذشتہ ایک سال میں تین مرتبہ عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے قوم کے سامنے پیش ہوئی اور تینوں مرتبہ عوام کی بھاری اکثریت نے اخوان المسلمون کے حق میں رائے دی۔ مصری عوام سے مایوس ہو کر امریکہ اور سیکولر عناصر نے فوج کا سہارا لیا اور ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے مصری عوام کا محاصرہ کیا۔ آج آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی استعماری طاقتیں خاموش کیوں ہیں؟ اقوام متحدہ کیوں حرکت میں نہیں آتی؟ ہم ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان، ایرانی حکومت اور افریقی یونین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے فوجی آمریت کو مسترد کرتے ہوئے صدر مرسی کو ہی ملک کا حقیقی آئینی سربراہ تسلیم کیا ہے۔ جن مسلمان سربراہان نے فوجی آمریت کو خوش آمدید کہا ہے، ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون کی حکومت کو اسلامی نظریات پر کاربند رہنے کی سزا دی گئی ہے۔ الجزائر اور ترکی کے بعد ایسا تیسری بار ہوا ہے کہ ایک اسلامی جماعت کی منتخب حکومت کو بزور قوت برطرف کر دیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غیر آئینی اقدامات مسلمان عوام کی آزادی رائے کی توہین ہیں۔ اگر مسلمان عوام آئینی اور جمہوری طریقے سے اسلامی اصولوں کا نفاذ چاہتے ہیں تو انھیں اپنے بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم کر دینا اور اس حد تک چلے جانا کہ ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کر دیا جائے، یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ اخوان المسلمون کو عالمی اسلامی تحریکوں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ مصر کی فوجی جنتا کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جبر اور تشدد کا راستہ اپنا کر نہ صرف مصر بلکہ پورے خطے کو ایک خطرناک نہج کی طرف لے جا رہی ہے۔ ان غیر آئینی اقدامات سے ان جماعتوں کو تقویت ملے گی جو گولی کے ذریعے سے اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ نوجوان مشتعل ہو کر آئینی راستوں کے بجائے غیرآئینی راستوں کی طرف جاسکتے ہیں۔ یہ صورت حال پوری دنیا کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
رہنماؤں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مصر کو موجودہ بحران سے نکالنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ صدر مرسی کی منتخب اور آئینی حکومت کو بحال کیا جائے۔ تمام فریق مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات کا حل نکالیں، صدر مرسی اپوزیشن کی شکایات کا ازالہ کریں اور تمام گروہوں اور طبقات کو انکا جائز مقام دلوائیں۔ مظاہروں کے دوران عوام پر فائرنگ کے ذمہ دار عناصر کا تعین کیا جائے اور ذمہ دار حکومتی عہدیداران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ہم حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مصر میں جمہوری حکومت کا فوج کی طرف سے تختہ الٹنے کے خلاف آواز بلند کریں اور مصر کے مسلمان عوام کے حقوق پر فوجی آمریت کے شب خون مارنے کی مذمت کرے۔ اس موقع پر ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان واقعات کو بہانہ بنا کر فلسطین کے ساتھ رفحہ بارڈر کو بند کر دینا ایک غیر انسانی اقدام ہے۔ جس سے فلسطینی عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا جو دراصل اسرائیل کی دیرینہ خواہش ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام امت مسلمہ کو فلسطین کے مظلوم عوام کی پشت پر کھڑے رہنا چاہیے اور ایسے اقدامات گریز کرنا چاہیے، جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو۔ اسی لیے ہم رفحہ بارڈر کو فی الفور کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔