تحریک طالبان پاکستان نے شام میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا
بلآخر شام میں لڑی جانے والی استعمار کی لڑائی میں پاکستانی طالبان کے ملوث ہونے کی بھی تصدیق ہوگئی ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز سے تو ثابت ہو گیا تھا کہ پاکستان سے بھی شدت پسند دہشتگرد طالبان شام میں لڑ رہے ہیں لیکن اس کی باقاعدہ سے کوئی خبر یا تصدیق نہیں ہو پا رہی تھی۔ لیکن اب پاکستانی طالبان نے برطانوی نشریاتی ادارے کو تصدیق کردی ہے کہ انہوں نے شام میں جاری ’’جہاد‘‘ پر نظر رکھنے کے لیے وہاں اپنا اڈہ قائم کیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ شام میں یہ اڈہ افغانستان میں لڑائی میں حصہ لینے والے ان عرب نژاد جنگجوؤں کی مدد سے قائم کیا گیا ہے جو حال ہی میں شام میں جاری لڑائی میں حصہ لینے کے لیے وہاں گئے ہیں۔ پاکستانی طالبان کے ایک رکن کے مطابق، گزشتہ دو ماہ کے دوران جنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کم از کم بارہ ماہر شام گئے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ان اطلاعات پر ردعمل دینے سے انکار کیا ہے۔
طالبان کے اہم رہنماء اور شامی اڈے کے رابطہ کار محمد امین نے بی بی سی کے احمد ولی مجیب کو بتایا کہ ’’جہاد‘‘ کی نگرانی کے لیے چھ ماہ قبل شام میں ایک سیل قائم کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق، اس سیل کو تحریکِ طالبان اور اس کے حامی شدت پسند گروپوں کی حمایت حاصل ہے اور یہ سیل شام کے تنازع کے بارے میں ’’معلومات‘‘ پاکستان میں موجود طالبان کو بھیجتا ہے۔ محمد امین کے مطابق، اس سیل میں شامل افراد کی مدد شام میں ہمارے وہ دوست کرتے ہیں جو ماضی میں افغانستان میں لڑتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سیل کا کام شام میں جہاد کی ضرورت کا اندازہ لگانا اور شامی دوستوں کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائیوں کا انتظام کرنا ہے۔ طالبان رہنماء کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان سے درجنوں افراد شام میں حکومتی فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے منتظر ہیں لیکن فی الحال وہاں سے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ انہیں ابھی افرادی قوت کی ضرورت نہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے شام میں ملوث ہونے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ خطے میں اسرائیل کے دفاع کیلئے کرائے کے جہادی کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ طالبان کے شام میں موجود ہونے کے اعتراف سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جو شام میں اسرائیل کے دفاع کیلئے لڑ رہے ہیں وہ پاکستان میں بھی امریکہ کی ہی لڑی لڑ رہے ہیں۔ کیوں کہ تاحال پاکستان میں کسی امریکہ سفارت خانے اور امریکی مفادات پر حملہ نہیں ہوا بلکہ اب تک پاکستان میں جتنی بھی قتل و غارت گری ہوئی ہے وہ معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کی ہوئی ہے۔ جنہیں بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے اور ان کی گردنیں تک اُڑا دی جاتی ہیں۔ شام میں طالبان سمیت تمام باغیوں کو اسلحہ امریکہ اور عرب ممالک فراہم کر رہے ہیں جس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستان کے عدم استحکام میں بھی انہیں ممالک کا ہاتھ ہے۔
خیال رہے کہ ماضی میں پاکستان سے جنگجو کشمیر، وسطی ایشیاء اور بلقان جا کر وہاں ہونے والی لڑائیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں شدت پسند تنظیم حرکت المجاہدین نے بوسنیا کی خانہ جنگی میں شرکت کے لیے بڑی تعداد میں جنگجو بھیجے تھے۔ اس کے علاوہ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو چورانوے تک نگورنو کارباخ کے تنازع میں بھی افغان اور پاکستانی جنگجو آذربائیجان کی جانب سے لڑے تھے۔