مضامین

شیعہ ووٹ بینک

ballet boxپاکستان میں الیکشن نزدیک تو نظر نہیں آرہے لیکن اسکی تیاریاں بہت زوروں پر ہے۔ اسمبلیوں کی تحلیل جاری ہے۔ سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہیں، ملک میں نگراں حکومت لانے کے لئے ابھی تک کسی بھی نام پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔ کرسیوں پر براجمان سیاسی طاقتیں کسی  بہت ہی ایماندار اور دیانتدار آدمی کی تلاش میں ہیں، کیونکہ انہیں یہ خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جس اقتدار پر آج تک ہم قابض تھے وہ کسی اور کے ہتھےچڑھ جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔

ایک طرف قادری صاحب شور مچا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف نہیں ہے تو دوسری طرف خان صاحب اپنے جارحانہ انداز میں قوم کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ملک کا مقدر بس انہی کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے علاوہ کوئی بھی آدمی اس ملک کا نصیب اور مقدر نہیں سنوار سکتا۔

شریف برادران بھی میدان میں بھر پور انداز میں اتر چکے ہیں تو صدر مملکت کی حکمراں جماعت بھی ملک کی پیشانی پر ستارے ٹانکنے کی باتیں کر رہی ہے۔ ادھر الطاف حسین نے بھی کچھ اچھا کر دکھانے کی باتیں کرنا شروع کر دی ہیں، خود ساختہ جلا وطن پیشہ ور مظلوم سیاست دانوں کی واپسی بھی شروع ہو چکی ہے جس میں سر فہرست سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پرویز مشرف بھی شامل ہیں،  غرض ہر چھوٹا منہ اس وقت ملک سنوارنے کی بڑی باتیں کر رہا ہے۔

مگر جناب اگر یہ زبانی باتیں ہوتیں تو شاید اتنی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ الیکشن کا زمانہ ہے اور پاکستان کی عام عوام کی ہمدردیاں جمع کرنی ہیں اور انکے فنگر پرنٹس حاصل کرنے ہیں تاکہ ان لکیروں کے تاروں سے تعمیر کی جانے والی کرسیوں پر براجمان ہوا جا سکے اور مظلوم عوام کی خون پسینے کی محنت سے حاصل ہونے والے پیسوں سے ٹھنڈی مشینوں میں سفر، ٹھنڈے بستروں میں آرام اور ٹھنڈی ٹھنڈی باتیں کر کے اسی عوام کو بے وقوف بنایا جاسکے جس کی محنت سے حضور والا نے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ اب یہ مقصد کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے اس کے لئے کچھ ایسا کر دکھانا ہے جس کی بدولت عوام انکے قریب ہو جائے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اسی عوام کے گن گانے شروع کر دو کہ جس کے فنگر پرنٹس درکار ہیں۔

لیجئے جناب والا ۔۔۔۔۔۔۔ ایک نیا انداز اور ایک نیا موضوع لے کر ساری سیاسی جماعتیں میدان میں اتر آئیں۔ عجیب سا موضوع ہے مگر بہت دلچسپ ہے۔ اسی قوم سے متعلق ہے کہ جو پاکستان کی تاریخ کی سب سے مظلوم اور مستضعف قوم ہے۔ اسکے دلاور اور شجاع فرزند،   دن دھاڑے شہید کئے گئے، ان کی عبادت گاہوں کو اپنی ذہنی پسماندگی کا نشانہ بناتے ہوئے تباہ و برباد کیاگیا، اہل علم اور اہل قلم  افراد اس قوم سے چھین لئے گئے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کیا گیا۔ کلمہ پڑھنے والوں کو کافر اور رافضی ہونے کے دشنام دئے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے کا غم منانے والوں پر بدعت کے فتوے جاری کئے گئے۔ جی ہاں میں اسی شیعہ قوم کی بات کر رہا ہوں جو اس مملکت خداداد کی زینت ہے۔  لیکن کراچی ہو یا کوئٹہ، لاہور ہو یا ڈیرہ اسماعیل خان، پارہ چنار ہو یا ملک کا کوئی دوسراحصہ، آئے دن  یہ قوم سیاہ لباس میں ملبوس اپنی مظلومیت پر نوحہ کناں نظر آتی ہے اور  ایک جنازہ دفناتی ہے تو دوسرا تیار دفن ہونے کا منتظر غسل خانوں کی زینت بنا ہوا ہوتا ہے۔

وہ جو کل تک سعودی ٹکڑوں پر پل رہے تھے اور جن کا ہم و غم سعودی عرب کا فرسودہ اور ناپاک نظام وطن عزیز پر مسلط کرنا تھا، کل تک جن کی آستینوں میں شیعہ قوم کے قاتل پلا کرتے تھے اور ان سنپولیوں کو دودھ ڈالنے کا سارا انتظام ان کے گھروں میں ہوا کرتا تھا اور اسکا سارا خرچ سعودی شہزادوں کی جیبوں سے پورا کیا جاتا تھا، کل تک جو کمال اتاترک کو اپنا آئیڈیل کہتے نہیں تھکتے تھے، حجاب اور تدین ان کی نظروں میں عیب تھا اور اسلام کو برائے نام تسلیم کیا کرتے تھے کیونکہ جمہوری اسلامی کا لفظ ہمارے مقدس آئین کا حصہ ہے، کل تک جو امریکہ کے یار تھے اور اس کے اشاروں پر ننگا ناچ دکھانے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے تھے اور ساری زندگی ملکہ برطانیہ کے تاج کی غلامی کرنے کی قسمیں کھایا کرتے تھے، آج انکو یک بیک وہ قوم یاد آگئی جو امریکہ ، برطانیہ مردہ باد کا نعرہ لگاتی ہے، اس قوم کے ساتھ ہمدردی جتانے لگے جو قوم سعودی اور ترک نظام کو نجس اور پلید تصور کرتی ہے، جس قوم کے لئے نعلین حضرت ختمی مرتبت باعث افتخار ہے، جس قوم کی تہذیب اور ثقافت اسلام پروری ہے اور جس کا تن من دھن آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر اور انک پیروی ہے۔

لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں، دوسری طرف شیعہ قوم  ہے جس نے ملکی تاریخ میں ہونے والے لا تعداد الیکشنز میں کسی نہ کسی جماعت کو ووٹ دیا بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہو گا اس قوم نے جمہوریت کو پروان چڑھانے کی خاطر ہر بار اپنےذاتی تشخص اور پہچان کو قربان کیا اور ہر ہر شہر میں بسنے والے شیعہ افراد نے اس شہر کی نمایندہ جماعت کو اپنے ووٹوں کے زریعے ایوان اقتدار میں پہنچایا ۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ قوم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں اپنا ذاتی تشخص ہی کھو بیٹھی اور ہر جماعت یہ تصور کرنے لگی کہ شاید اس قوم پر ان ہی کی اجارہ داری ہے اور بس۔رفتہ رفتہ یہ تصور بھی ختم ہو گیا کہ اب شیعہ قوم دوبارہ اپنا سیاسی تشخص پیدا کر
پائے گی کیونکہ بزرگوں  نے اس قوم کی خصوصیات سے صرف نظر کرتے ہوئے  اس کو ایک کمزور اور لاچار قوم جانا اور خود کو بے بس رہنما۔ بس پھر کیا تھا ہر جماعت نے شیعوں کو بلی کا بکرا سمجھ کر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے انکی قربانی دینا شروع کردی۔

ہر ڈوبتا سورج مرنے والوں کی یادیں چھوڑ کر ڈوب جاتا اور ہر نیا دن کاندھوں پر چند جنازے لئے ابھرتا، یہ روایت آج بھی برقرار ہے شاید سورج کو اس رسم کی عادت پڑ گئی ہے، یا بلی چڑھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ بڑے شہروں کی نمایندہ جماعتوں نے علماء ، اکابرین اور دین کی خدمت میں سرگرم جوانوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کر دیا ، کتنے گھروں میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لٗے ، کتنے سہاگ اجڑ گٗے ، کتنے ہی خاندانوں کے واحد کفیل اس خون آشام سیاست کی نذر ہو گٗے، ایک ساتھ دسیوں جنازے، ایک ساتھ بھاٗی ، بیٹا، باپ سب ہی شہید ہو گٗے پورے پورے خاندان اجڑ گٗےاور لیجٗے ! قاتل خود ہی مقتول سے ہمدردی  بھی جتانے لگے ،  ستم بالائے ستم یہ کہ ہر حادثے کی ایف آئی آر بھی کٹتی رہی مگر کسی انجانے قاتل کے نام۔۔۔۔

قوم کی آنکھیں بند تھیں اور قوم اپنے قاتلوں کو ہی اپنا ہمدرد سمجھتی آرہی تھی کہ قوم کی ان بند آنکھوں پر  شہیدوں کے خون کے چھینٹوں میں اضافہ ہو گیا، ان میں اتنی شدت تھی کہ یہ قوم بیدار ہی نہیں چوکنا بھی ہو گئی ، اس قوم کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ہماری بقا کی ضامن یہ مردہ تنظیمیں نہیں ہو سکتیں  جو خود امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور ترکی جیسے بد کار کاندھوں کے سہارے پر کھڑی ہوں اور نہ ہی وہ لوگ ہماری بقا کے ضامن ہو سکتے ہیں جن کا جسم تو علامتی طور پر اس قوم کا حصہ ہے انکی روح اور انکی فکریں کسی اور مدد اور کسی اور نصرت کی متلاشی ہیں ، نہ ہی وہ لوگ جو یہ باور کر بیٹھے ہیں کہ ہم بغیر کسی سہارے کہ اپنا تشخص بر قرار نہیں رکھ سکتے اسی لئے مختلف سیاسی قیادتوں کے دروازے بجاتے نظر آتے ہیں اور ان جھوٹے رہنمائوں کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔

اب الحمداللہ یہ قوم بیداری کے اس مرحلے پر آگئی ہے جہاں ایک بار پھر وہ سرکار دو عالم حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکی آل اطہار  علیہم السلام کو ہی اپنا  تنہا رہبر اور رہنما تسلیم کر چکی ہے اور اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ کسی سیاسی تنظیم کے منشور کے بجائے اسلام ناب محمدی میں ہی ان کی بقا اور ارتقا مضمر ہے۔

شہیدوں کے خون نے کم از کم اتنا اثر ضرور دکھا یا کہ یہ قوم اپنے دشمنوں کی شناخت کر چکی ہے اور اسے یہ بات معلوم ہو گئی ہے جو جماعتیں آج لومڑی کی چال چل کر ہم سے ہمدردیاں جتا رہی ہیں ، یہی وہ لومڑیاں ہیں جوہمارے خون سے اپنی پیاس  بھی بجھا  رہی ہیں اور ہمارے ہی سروں  کے ٹیلوں پر چڑھ کر  ہمارے ہی غم میں واویلا کر رہی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بیداری اور ہوشیاری کو باقی رکھنے کے لئے ایک دوسرے کو حوصلہ دیا جائے، اس بات کو فراموش نہ کیا جاٗے کہ ہمارےاصلی دشمن  آج بھی یہود و ہنود ہیں،  اور یہ سامنے نظر آنے والے سیاسی ٹولے صرف  شطرنج کی بساط پر بچھے ہوٗے مہرے ہیں اور اس سے زیادہ ان کی  کوٗی اوقات نہیں ہے

 اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی سیاسی جماعت ہماری حمایت کی خواہاں بھی ہو تو اس  سے اپنی پالیسیز کے مطابق  بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے اور اس جماعت کو یہ باور کروایا جائے کہ ہمارا آپ سے الحاق ہماری پالیسیز کے مطابق ہے نہ کہ آپ کی تنظیمی پالیسیز کے مطابق  اور  ملت تشیع کے ووٹوں پر اقتدار میں آنے والے یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اس بار ملت تشیع آپ کے شیعہ مخالف فیصلوں اور اقدامات پر مظاہرے نہیں بلکہ عملی اقدامات کرے گی۔  ہمارا منشور اسلام ناب محمدی کے سایے میں حکومت اسلامی کا قیام،  ہماری پہچان حضرت عباس علمدار کا علم، اور ہمارےانتخابی نعرے لبیک یا رسول اللہ اور لبیک یا حسین ہیں، ہم  ہیں تو بس علی ابن ابی طالب کے شیعہ، فاطمہ زہرا کی دعا اور دین اسلام کے اصل اور حقیقی وارث۔ ہم نے ہی اس وطن عزیز کو بنایا تھا اور ہم ہی ہیں کہ جن کو اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اگر ہم آج بھی مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ بنتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہم سے ووٹ ڈالنے کا حق بھی چھین لیا جائے اور اس ملک پر مسلط استعمار، یہود و ہنود اور وھابیت کی آلہ کار حکومتیں اس قوم کو دہشتگرد ی کے الزامات لگا کر تہہ تیغ کرنا شروع کر دے اور ہماری ہی سرزمین سے ہمارا ہی وجود مٹ جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button