پاکستانی شیعہ خبریں

علامہ عارف الحسینی کے مقدمہ قتل کی ابتک کی پیشرفت پر خصوصی رپورٹ!!!

janaza arif hussaini25 برس قبل ملت جعفریہ کے ہردلعزیز اور محبوب قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کو پانچ اگست 1988ء کی صبح پانچ بجے شہید کر دیا گیا، جن کے قتل کی ایف آئی آر صبح ساڑھے چھ بجے درج کرائی گئی۔ یہ ایف آئی آر پاراچنار سے تعلق رکھنے والے مدرسہ جامعہ شہید عارف الحسینی پشاور کے چوکیدار عبداللہ خان ولد میر افغان قوم ہزارہ کی مدعیت میں درج کرائی گئی۔ شروع میں کیس کی تفتیش ڈی ایس پی علی بنگش نے اپنی نگرانی میں کرائی، جنہوں نے اس کیس میں کافی زحمتوں کے بعد دس ملزمان کو ملوث قرار دیا، جن میں سینیٹر ہاشم رضا خان، اس وقت ایوان صدر سے تعلق رکھنے والے کپیٹن (ر) ماجد رضا گیلانی، غالب رضا گیلانی، بدیع الزمان المعروف بدرے، سید غلام حسین، ساجد عرف میجر رمضان، شیر گل، جمیل اللہ، فقیر گل، سابق گورنر سرحد جنرل (ر) فضل حق اور سراج شامل ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ کہ ڈی ایس پی علی بنگش کو چراٹ کے مقام پر جعلی پولیس مقابلہ کرا کے راستے سے ہٹا دیا گیا، یوں کیس میں جاری اہم پیشرفت رک گئی۔ دس اکتبوبر 1991ء کو سابق گورنر جنرل فضل حق کو اس کے گھر کے قریب ہلاک کر دیا گیا، جس کا مقدمہ تھانہ سرکی پشاور میں درج کیا گیا۔

1992ء میں ڈی ایس پی علی بنگش کی طرف سے ملوث قرار دیئے گئے ملزمان میں سے سراج وعدہ معاف گواہ بن گیا اور ملزمان جمیل اللہ، بدیع الزمان اور فقیر گل نے اقرار جرم کر لیا، لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ 31 جولائی 1993ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فضل الرحمان خان نے جیل کے اندر غیر قانونی فیصلہ سناتا ہوئے تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا اور یوں کچھ عرصہ بعد ہی وہ بیرون ملک فرار ہوگیا۔ اس وقت جیل کے اندر فیصلہ سنانے کا قانون موجود ہی نہیں تھا، لیکن خاص ہدایات پر اس جج نے یہ فیصلہ جیل کے اندر جا کر سنا دیا۔ اگست 1993ء کو پشاور ہائیکورٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی گئی، ایک عرصہ تک جج صاحبان اس مقدمہ کی سماعت سے لیت ولعل سے کام لیتے رہے، کبھی جج صاحب چھٹی پر تو کبھی وکیل چھٹی پر، کبھی سرکاری وکیل غیر حاضر اور کبھی ملزمان کے وکیل عدالت میں حاضر نہیں ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ اہم مقدمہ ہائیکورٹ میں مذکورہ ہتھکنڈوں کی نذر ہونا شروع ہوگیا۔ 1997ء سے 2003ء تک مقدمہ مکمل طور پر سرد خانہ کی نذر رہا۔

2003ء میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت بننے کے بعد اس وقت کے صوبائی مشیر مولانا محمد رمضان توقیر کی کوششوں سے ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور سماعت کی استدعا کی۔ عدالت عالیہ کو بتایا گیا کہ ملزمان میں سے صرف تین افراد ہاشم خان، بدیع الزمان اور سراج زندہ ہیں، باقی تمام ملزمان یا تو قتل کر دیئے گئے ہیں یا پھر طبعی موت مرگئے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ بینچ میں شامل چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مطیع اللہ خان نے تمام ملزمان سمیت فریقین کو عدالت حاضر ہونے کا نوٹس بھجوایا، لیکن سونے پے سہاگہ یہ کہ 20 دسمبر 2011ء کو ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کی اپیل خارج کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے 31 جولائی 1993ء کے فیصلہ کو برقرار رکھا۔

20 دسمبر 2011ء کو ملزمان کی طرف سے بیرسٹر ظہور الحق، سابق ہائی کورٹ بار کے صدر خواجہ خان محمد گاڑا اور اشتیاق ابراہیم پیش ہوئے اور صوبائی حکومت کی طرف سے بیرسٹر وقار نے حاضر دی جبکہ مقتول کے ورثاء کی طرف سے کوئی وکیل پیش نہ ہوا۔ بعد ازاں 19 فروری 2012ء کو ہائیکورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف کے پی کے حکومت کی طرف سے بدیع الزمان سمیت دیگر ملزمان کے خلاف کریمینل اپیل دائر کی گئی، جس کی تاحال سپریم کورٹ میں پیشی نہیں لگ سکی۔ دوسری طرف قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) سے محبت کے دعویدار اور تنظیمیں اس کیس میں سنجیدہ اقدامات اٹھانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں یا پھر ان کی ترجیحات میں یہ کیس شامل ہی نہیں ہے۔ اپنے اپنے جلسوں اور اجتماعات میں بڑے بڑے دعوے کئے گئے لیکن عملی طور پر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ایک دن یہ مقدمہ ہمیشہ کیلئے سرد خانے کی نذر ہو جائیگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button