مضامین

اے خلق خدا کے دشمن یاد رکھو ۔۔۔۔۔ ہم کربلا کے بیٹے ہیں

karbalaآخر ان نعروں میں ایسا کیا ہے کہ دشمن ان نعروں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے، آخر ان نعروں کی تاثیر کیسی ہے کہ دشمن پر ایک ہیبت طاری ہے، آخر ان نعروں میں ایسا کیا ہے جو دشمن اس کو کہیں بھی برداشت نہیں کر پارہا ہے، لیکن جب میں ان نعروں کو اپنی زبان پر لاتا ہوں یعنی ’’ یہ درس کربلا کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ خوف بس خدا کا ہے ‘‘ تب مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک دشمن کے لئے ایک پیغام ہے کہ اے خدا اور خلق خدا کے دشمن یاد رکھو کہ ہم کربلا کے بیٹے ہیں، ہم کربلا میں بلند ہونے والی امام حسین (ع) کی آرزوؤں کو پورا کرنے کے لئے میدان میں اترے ہیں، ہم کربلا کو اپنا آئین زندگی تصور کرتے ہیں، ہم نے کربلا کی آواز پر لبیک کہہ کر دراصل یہ اعلان کیا ہے کہ تمہاری تعداد لاکھوں ہی میں کیوں نہ ہو، تمہارے پاس جنگی ساز و سامان کی کثرت ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی تم ہمارے مقابلے میں ایک پست اور کمزور دشمن ہو کیونکہ اس محاذ میں ہمارے ہادی اور رہبر امام حسین (ع) ہیں اور تم یقیناً امام حسین (ع) اور ان کی نہضت سے اچھی طرح واقف ہو کہ حسین (ع) اور ان کے چاہنے والے لاکھوں کے مقابلے میں بہتر (۷۲) ہوکر بھی باطل کے خلاف قیام کرتے ہیں اور شہید ہوکر بھی دشمن کو شکست فاش سے دوچار کرتے ہیں۔

جب اس تناظر میں دشمن کی پریشانی کو دیکھتا ہوں تو یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ ہمارا کام راہ خدا میں اپنا وظیفہ انجام دینا ہے، ہمیں تو بس اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے، ہمیں کربلا کے حقیقی پیغام کو عام کرنے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہے، ہمیں اپنی قوم کے لئے حوصلوں اور اعصاب کی جنگ کے محاذ میں فرنٹ لائن پر کھڑا ہونا ہے، چاہے اس کی ہمیں اس کی کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے، لیکن ہمیں اپنا کام کرنا ہے اور اگر ہم نے صاف نیت کے ساتھ اپنا کام انجام دیا تو خدا بھی ہماری مدد کرے گا، امام زمانہ (عج) بھی ہماری امداد کریں گے اور دشمن بھی ہماری طاقت سے لرزہ براندام ہوگا۔

آج امت اسلامیہ کے حقیقی فرزندوں نے اپنے قائد حقیقی شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی یاد کو زندہ کیا ہے، ان کے پیغام کو زندہ کیا ہے، ان کے افکار کو زندہ کیا ہے، ان کے کردار کو زندہ کیا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ جب شہید حسینی (رہ) کے معنوی فرزند اپنی سیاسی طاقت کے ذریعے ملت جعفریہ کو اس ملک کی طاقتور ترین قوت کے طور پر پیش کریں گے۔ لیکن یہ راہ راستہ مشکلات کا راستہ ہے، یہاں صعوبتیں ہیں، اسیری ہے، شہادت ہے اور ان تمام راستوں کے ذریعے ہم عزت و شرافت کو حاصل کریں گے، امام زمانہ (عج) کا قرب حاصل کریں گے اور انشاء اللہ ایک دن آئے گا کہ منجی عالم بشریت (عج) کا ظہور ہوگا اور دنیا ان کے عادلانہ نظام کی برکات کا مشاہدہ کرے گی۔ تب ہمیں احساس ہوگا کہ ان مشکلات کے راستہ سے گزر کر ہمیں جو نعمت نصیب ہوئی ہے وہ خدا کی طرف سے کسی احسان عظیم سے کم نہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ ہمیں قائم آل محمد (عج) کے ظہور کی راہیں ہموار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button