مضامین

افغان جہاد پالیسی اپنی ڈگر پر چلتی رہی اور شیعہ روز مارے جاتے

parachinar shaheedسمجھ نہیں آتی اس کالم کی ابتداء کہاں سے کروں۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ کہا جائے گا کہ پی پی سے اتحاد شیعہ قوم کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھ کر کیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ ملک کی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو سیکولر بھی ہے اور شیعہ مسلک سے قریب تر بھی۔ اس جماعت کا چیئرمین اور شریک چیئرمین دونوں شیعہ ہیں، جس کا ثبوت ان سربراہوں کے گھروں پر لگے ہوئے علم ابو الفضل العباس کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس جماعت کا سابق وزیراعظم، گیلانی سید تھا۔ جو سنی ہونے کے باوجود شیعہ حضرات کے لیے خصوصی احترام کے جذبات رکھتا تھا۔ اس جماعت کے وفاقی وزراء کی اکثریت سید، شاہ جی، مخدوم اور اسی قسم کے دیگر لاحقوں کی حامل تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس سیاسی جماعت کے کچھ وزراء نے ملک میں ہونے والی شیعہ نسل کشی کے خلاف ایوان زیریں اور بالا میں آواز بلند کی، جس کی بنیادی وجہ ان اراکین کا خود شیعہ ہونا بتایا جاتا ہے۔ اسی جماعت کے دور حکومت کے اختتام پر ایران پاکستان گیس پائپ لائن معاہدہ طے پایا۔ اسی جماعت کی حکومت نے شیعہ مسلک کے بھرپور احتجاج پر صوبہ بلوچستان میں قائم اپنی ہی حکومت کو چلتا کیا اور وہاں گورنر راج نافذ کیا۔

یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ شیعہ اور پی پی پی اتحاد کوئی نئی بات نہیں۔ اس اتحاد کی ابتداء ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے ہوئی۔ بھٹو کی ایرانی بیوی نصرت بھٹو، شاہ ایران سے تعلقات، شامی حکومت سے روابط اور خود بھٹو کا شیعہ مسلک کی جانب جھکاؤ، اس بات کا باعث بنا کہ ملک کے اکثر شیعہ بلا سوچے سمجھے اس کاروان کا حصہ بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء کی سیاسی مخاصمت کے دور میں شیعہ ضیاء کے حریف بن گئے۔ ضیاءالحق نے ہر آمر کی مانند اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے مخالف کیمپ کا سہارا لیا۔ اس کا جھکاؤ ایران و شام مخالف عرب ریاستوں اور شیعہ مخالف مسالک کی جانب ہوگیا۔ اس دوران امریکہ بہادر کو بھی افغانستان میں اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملا اور یوں بھٹو کا مخالف کیمپ یعنی ضیاء، عرب ریاستیں، تکفیری اور دیگر چند مسالک بشمول امریکہ کے یک جان ہوگئے۔

ملک میں جاری سیاسی کشمکش کے دوران بھٹو پہلا نشانہ تھا، پھر اس کی تنظیم پی پی پی، لیکن بات یہیں ختم نہ ہوئی۔ بھٹو اور اس کی تنظیم کے منتشر ہونے کے بعد وہ گروہ جو ضیاء کیمپ کے نشانے پر آیا شیعیان علی کا گروہ تھا، جو بلا سوچے سمجھے، جذبات کی رو میں بہ کر بھٹو کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اب تمیز باقی نہ رہی کہ کون بھٹو کا حامی تھا اور کون مخالف، سبھی شیعیان حیدر کرار کے خلاف ایک محاذ قائم کر دیا گیا، جس میں ایک اہم عامل ایران کا اسلامی انقلاب بھی تھا۔ انقلاب اسلامی ایران نے امریکہ اور دنیا بھر کی قوتوں کی آنکھیں کھول دیں اور انھیں معلوم ہوگیا کہ یہ قوم کن صلاحیات کی حامل ہے اور اس سے کیسے کیسے معجزات رونما ہوسکتے ہیں۔ اب پی پی پی منظر عام سے مکمل طور پر ہٹ چکی تھی۔ ضیاء کیمپ کی پالیسیوں کی راہ میں واحد رکاوٹ ملک کی شیعہ آبادی تھی۔ مجاہد تیار کئے گئے، لشکر بنے، سپاہیں میدان میں اتریں اور یوں بھٹو کے سابق حمایتی اور آج کے انقلاب اسلامی ایران کے حامی شیعوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔

ضیاء کی حادثاتی موت کے بعد بھٹو کی بیٹی پاکستان لوٹی۔ ضیاء کیمپ کے خلاف میدان میں حاضر رہنے والے اس گروہ نے سمجھا کہ شاید اب مشکل کٹ گئی ہے۔ مسلکی دیوانوں نے اپنی مشکلوں سے نجات کے لیے ایک مرتبہ پھر بھٹو کی بیٹی کو بھرپور ووٹ دیئے اور اقتدار تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ ضیاء کیمپ اسلامی جمہوری اتحاد کی صورت میں بھٹو کی بیٹی کے مدمقابل آیا اور اپنی تمام تر طاقت کے باوجود قومی اسمبلی کی 207 نشستوں میں سے صرف 56 نشستیں حاصل کر سکا۔ مزے کی بات ہے کہ اس وقت کی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور آج کی تحریک اسلامی جس کی قیادت اس وقت بھی علامہ سید ساجد علی نقوی فرما رہے تھے، نے یہ الیکشن ایک الگ جماعت کی حیثیت سے لڑا۔

اس جماعت کو اس وقت کل 42,261 ووٹ ملے جو کل ووٹوں کا .2% بنتا ہے۔ یہ جماعت قومی اسمبلی میں کوئی نشست نہ جیت سکی۔ ایک اور خوشگوار حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) اور (د) جو ضیاء کیمپ سے متعلق جماعتیں تھیں، نے بھی الگ جماعتوں کی حیثیت سے انتخاب لڑا۔ ان دونوں جماعتوں نے قومی اسمبلی میں آٹھ نشستیں حاصل کیں۔ بہر حال بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی، جو دو سال سے زیادہ نہ چل سکی۔ اگلا اقتدار پھر ضیاء کیمپ کو ملا۔ 1993ء میں ایک مرتبہ پھر بی بی اقتدار میں آئی، لیکن اس مرتبہ پارٹی خود کئی دھڑوں میں تقسیم تھی، شیرپاؤ گروپ، پارلمنٹیرینز، بھٹو گروپ۔ اس عرصے کے دوران 1996ء میں بے نظیر کا بھائی مرتضٰی بھٹو قتل ہوا اور پی پی حکومت خود ان کے اپنے صدر فاروق احمد خان لغاری نے ختم کردی۔

پھر بے نظیر کے قتل تک یہ جماعت کبھی بھی اقتدار حاصل نہ کر سکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا گذشتہ پانچ سالہ دور اقتدار بہت دور کی بات نہیں جس کے واقعات کو دوبارہ دہرایا جائے، تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس جماعت کی کارکردگی کھل سکے۔ بھٹو کی بیٹی ملک میں اپنے باپ کی وراثت یعنی اقتدار حاصل کرنے آئی تھی، جس کے لیے اس نے اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو والا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان لگایا، اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران
بھٹو کے جذباتی اور مسلکی حامیوں کے ساتھ کیا بیتی۔ اس کی جماعت اور اقتدار کے ہی اتنے جھمیلے تھے، جو اسے اس گروہ کے بارے میں سوچنے تک نہیں دیتے تھے۔

افغان جہاد پالیسی اپنی ڈگر پر چلتی رہی اور شیعہ روز مارے جاتے رہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ بے نظیر کمزور تھی اور اس کے ہاتھوں میں کچھ نہ تھا۔ یہ بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں پی پی حکومت نے جس بھرپور طریقے سے اقتدار کے مزے لوٹے اس دوران ہر چیز کو ازسر نو ترتیب دیا جاسکتا تھا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ لے دے کر اپنے اقتدار کے آخری دو ماہ میں مجموعی طور پر پوری قوم اور بالخصوص تشیع پر دو احسانات کئے گئے۔ ایک گیس پائپ لائن اور دوسرا صوبہ بلوچستان میں چند دنوں کا گورنر راج۔ میں تو ان دونوں اقدامات کو ووٹ حاصل کرنے کے حربے ہی کہ سکتا ہوں۔

جہاں تک تحریک اسلامی پاکستان کے پی پی سے حالیہ اتحاد کا سوال ہے تو اس کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے۔ کل یعنی 1988ء میں جب بی بی مظلوم تھی، اس کے ساتھیوں پر کرپشن کے کوئی الزامات نہ تھے، بھٹو کے اقتدار کا سنہرا دور اور 1973ء کا آئین لوگوں کے ذہنوں میں تازہ تھا اور قوم ضیاءالحق دور اور اس کی باقیات کے کرتوتوں سے تنگ آئی ہوئی تھی، آپ نے بھٹو کی بیٹی کا ساتھ نہ دیا اور ایک الگ جماعت کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور آج جب کہ پوری قوم بھٹو کے چیلوں کی کرپشن سے آگاہ ہے اور جانتی ہے کہ اس ٹولے نے اپنے اقتدار کے گذشتہ پانچ سالوں میں عوامی فلاح کا ایک کام بھی نہیں کیا۔ آج جبکہ اس پارٹی کے فصلی بٹیرے جماعت کو چھوڑ چھوڑ کر اس سے دور ہو رہے ہیں۔ آج جب کہ نظریاتی اور سیاسی حوالے سے یہ جماعت اپنی تنزلی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے تو آپ ان کی گود میں جا بیٹھے۔ حیرت ہے مجھے ملت کے ان اعلٰی دماغوں پر جو ہمیشہ قوم کے اجتماعی شعور کے برعکس فیصلے کرتے ہیں اور جب ان فیصلوں میں ناکام ہوتے ہیں تو ذمہ داری ایک دوسرے کے سروں پر تھوپنا شروع کر دیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button