بلوچستان سے شدت پسند لڑنے شام جا رہے ہیں: وزیراعلیٰ بلوچستان
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کی شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگ شام میں لڑائی لڑنے کے لیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ نہیں معلوم کے کتنی تعداد میں یہ شدت پسند جا رہے ہیں البتہ حکومت کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
بی بی سی اردو سروس کے نامہ نگار ثقلین امام کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ اس وقت ملک اور صوبے کے لیے زیادہ بڑا خطرہ مذہبی شدت پسندوں کی دہشت گردی ہے اور شدت پسندی سے نمٹنا اس وقت سب سے بڑا چیلینج ہے۔
کوئٹہ شوریٰ کے وجود پر انہوں نے کہا کہ جس طرح ملک بھر میں طالبان ہیں اسی طرح بلوچستان میں بھی ہیں مگر انھوں نے کہا کہ ابھی تک ان کے علم میں نہیں ہے کہ ایسی کوئی شوریٰ کوئٹہ موجود ہے۔
افغان طالبان رہنما ملا عمر کے بلوچستان میں ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے مگر اتنے بڑے صوبے میں کوئی بھی کسی دور دراز جگہ پر چھپ سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے تصدیق کی کہ حکومت کی رپورٹوں میں بلوچستان کی شورش کے پس پردہ بیرونی ہاتھ کا ذکر آتا ہے جس میں بھارت کا نام بھی آتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ وہ بلوچستان میں علحیدگی کی تحریک کو اس کے اپنے تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہیں اور اسے بیرونی سازش کا حصہ نہیں سمجھتے۔ انھوں نے کہا کہ علیحدگی یا اپنی شناخت کے لیے تحریک انیس سو اڑتالیس سے چل رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان لندن فیض میلے میں شرکت اور ریکو ڈیک معدنیات کے معاملے پر بین الاقوامی مصالحت کاری کے عمل میں بلوچستان کا مقدمہ لڑنے آئے تھے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ اپنے لندن میں قیام کے دوران انھوں نے یورپ یا لندن میں مقیم کسی بھی بلوچ رہنما کے ناراض بچوں سے رابطہ نہیں کیا ہے کیونکہ رابطہ کاری کی کوششوں کو ابھی شروع کرنا ہے۔
انھوں نے کہ اگر کوئی بلوچ رہنما واپس آنا چاہے گا تو اس کے اس آئینی حق کو تسلیم کیا جائے گا۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ انھیں بلوچستان کے قوم پرستوں سے بات چیت کا مینڈیٹ نہ صرف آل پارٹیز کانفرنس نے دیا ہے بلکہ اس سلسلے میں خفیہ اداروں سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے انھیں بلوچستان کے معاملات سے نمٹنے کا مکمل اختیار دیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ علحیدگی پسند مسلح بلوچ گروہوں سے بات چیت کےلئے کوئی شرط نہیں رکھیں گے۔ تاہم انھیں نے کہا کہ بلوچ ثقافت اور نفسیات کے پیش نظر وہ بلوچ قوم پرستوں سے ہتھیار پھیکنے کے لیے نہیں کہیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ان کی پہلی ترجیح یہ ہو گی کہ وہ اور قوم پرست مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے بلوچستان کو درپیش مسائل کا حل نکال سکیں۔ ’اس تناظر میں ہم بگٹی قبیلے کے بکھرے ہوئے لوگوں کو واپس ڈیرہ بگٹی لانے میں کامیاب رہے ہیں۔‘
البتہ انھوں نے کہا کہ اگر مسلح قوم پرستوں نے بات چیت کےلیے کوئی شرط رکھی تو وہ ریاست کے سیاسی ڈھانچے میں موجود تمام اداروں سے مشاورت کرکے ان شرائط کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے کیونکہ اکیلا بلوچستان کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا ان کے پاس علیحدگی پسند مسلح بلوچوں سے بات چیت کے لیے ایک نقشہ راہ موجود ہے مگر وہ جب تک اس عمل کے دوسرے حصے داروں سے رابطہ نہیں کر لیتے ہیں وہ صوبے میں بات چیت کا عمل شروع نہیں کریں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ گمشدہ بلوچوں اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے واقعات میں سرکاری ایجنسیاں براہ راست ملوث ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا ان واقعات میں ایجنسیوں کے علاوہ مسلح گروہ، دوسرے لوگ بھی اور ’نان سٹیٹ ایکٹرز‘ بھی ملوث ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اس وقت ان کی نظر میں علیحدگی پسند مسلح تحریک سے زیادہ خطرناک مذہبی دہشت گردی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے انھوں نے شیعہ سنی اور دیگر طبقوں کے رہنماؤں سے رابطے قائم کرنا شروع کر دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ ملک میں اکھٹا ہو سکتے ہیں تو کوئٹہ میں کیوں نہیں؟
بشکریہ اردو بی بی سی ۔کام