مسئلہ حل ہوگیا!!!
رات کے اڑھائی بجے فیس بک آن کرکے دوستوں کی طرف سے شیئر کی گئی پوسٹیں چک کر رہا تھا کہ جوہر آباد کے ایک دوست ندیم حیدر کا پیغام آیا کہ کیا آپ چند منٹ کے لیے کال کرسکتے ہیں۔ انتہائی اہم بات کرنی ہے۔ یہ پیغام پڑھ کر میں نے فوراً انہیں فون کیا تو انہوں نے بغیر کسی توقف کے کہا کہ میرا مسئلہ حل ہوگیا۔ استفسار کیا کہ کیا آپ کی شادی ہوگئی یا اچھی جاب مل گئی؟ جواب ملا کہ نہ شادی ہوئی اور نہ ہی اچھی جاب ملی ہے۔ میرت حیرت میں اضافہ ہوا اور میں نے پوچھا کہ بھائی کونسا مسئلہ حل ہوگیا، جو اتنے خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ جواب ملا کہ کئی دنوں سے شش و پنج میں تھا کہ کیا ہمیں انتخابات میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ کیا ہمیں اس الیکشن کا بائیکاٹ کرنا چاہیے یا نہیں؟ کیا پاکستان میں نظام امام و امت برپا ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس حوالے میں مختلف آراء سامنے آرہی تھیں، ملک کی ایک بڑی شخصیت اپنی کئی تقاریر میں الیکشن میں حصہ لینے کو استعماری نظام کو مضبوط بنانے سے تعبیر کرچکی تھی، جبکہ دوسری طرف علماء کی اکثریت اس الیکشن میں حصہ لینے کو دہشتگردوں کی پارلیمان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا قرار دے رہی ہے اور شرعی ذمہ داری سمجھ کر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ ایسے میں مجھ جیسے عام فرد کے لیے پریشانی بڑھ گئی تھی کہ کیا کیا جائے؟ کس کی بات پر عمل کیا جائے۔؟
دوسری طرف پاکستان میں نظام امام و امت برپا کرنے کی باتیں بھی چل رہی ہیں، روزانہ سوشل میڈیا پر گھنٹوں اس موضوع پر بحثیں ہوتیں ہیں۔ جہاں لوگ اپنی اپنی باتوں کو درست ثابت کرنے کیلئے مختلف دلائل کا سہارا لیتے ہیں وہیں اختلاف رکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لینے سے بھی نہیں ٹلتے۔ ایسے میں ہم جیسے افراد کی کنفیویژن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔ ندیم نے بتایا کہ چند روز قبل انہیں پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی جانے کا اتفاق ہوا، اس دوران انہیں یاد آیا کہ کیوں نہ وہ اپنی اس مشکل کا حل نائب امام ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے پاکستان میں موجود نمائندہ خاص حضرت آیت اللہ بہاؤالدینی سے پوچھ لوں۔ ندیم بھائی نے بتایا کہ وہ آغا صاحب کے پاس گئے اور کچھ سوالات کئے جن کے جوابات حسب ذیل ہیں:
آغا جان، کیا ہمیں پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ علماء الیکشن میں حصہ لینے کو حرام اور اسے نظام امام و امت برپا ہونے میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، اس حوالے سے ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے ؟
آغا بہاؤ الدینی نے کہا کہ نظام امت و امامت برپا کرنے کیلئے چار ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ نمبر ایک آئین یعنی دستور، نمبر دو رہبر، نمبر تین فدایان اور نمبر چار نظام کی قبولیت۔ آیت اللہ بہاؤالدینی نے فرمایا کہ پاکستان میں یہ ارکان موجود نہیں ہیں، البتہ فقط کچھ تعداد میں فدایان موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آئین پر کام نہیں ہوا، خمینی جیسا رہبر نہیں اور سب سے بڑھ کر نظام کو قبول کرنے والے ہی نہیں، تو ایسی صورت میں نظام امام و امت کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پاکستان میں صرف پندرہ سے بیس فی صد شیعہ ہیں اور وہ بھی گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں جبکہ اسی سے پچاسی فیصد برادران اہل سنت ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے اس نظام کے حوالے سے تحفظات ہوں، پس معروضی حالات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے فی الوقت پاکستان میں نظام امام و امامت قابل عمل نہیں ہے۔ آغا بہاؤ الدینی نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں کیا اب ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے، یا میدان میں اتر کر اقدامات کرنے چاہیں۔ آغا نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی طرف سے بھرپور ذمہ داری ادا کریں۔
ندیم حیدر نے آغا بہاؤالدینی سے ایک اور سوال کیا کہ پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینے کے حوالے سے مراجع عظام کا کیا حکم ہے۔؟ جواب ملا کہ آیت اللہ جوادی آملی اور آیت اللہ مکارم شیرازی اسے واجب قرار دیتے ہیں جبکہ آیت اللہ مصباح یزدی نے کہا ہے کہ میں شریعت کی بات نہیں کرتا البتہ عقل کی یہی بات ہے کہ الیکشن میں حصہ لیا جائے۔ پھر آغا نے اس بات کی تاکید کی کہ پاکستان میں علماء، جو اہل عقل ہیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ سب کو اتحاد کے ساتھ ملکر چلنا چاہیے۔ آغا بہاؤالدینی مزید فرماتے ہیں کہ پاکستان میں کئی ایسے ادارے، تنظیمیں ہیں جو ظاہراً خوشنما پھل کی طرح ہیں لیکن اندر سے کیڑے کی طرح ولایت کو کھا رہی ہیں۔ ندیم حیدر کی باتوں میں اعتماد تھا، وہ بار بار یہی کہہ رہے تھا کہ میری سب سے بڑی مشکل حل ہوگئی اور معاملہ حل ہوگیا۔ میں ان کی تمام باتوں کو سنتا رہا اور ایک لحظہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ انہیں خدا حافظ کہا لیکن خود کافی دیر تک سوچتا رہا۔
یہ چند ہفتے پہلے کی بات ہے لیکن دو روز قبل کچھ اور دوستوں نے بھی لاہور میں آغا بہاؤالدینی سے ملاقات کی اور اس حوالے سوالات کئے۔ ان دوستوں نے مجھے بتایا کہ ان کی آغا بہاؤالدینی سے تقریباً ڈھائی گھنٹے تک نشست ہوئی، جس میں ملی مسائل سمیت عالمی ایشوز پر تبادلہ خیال ہوا۔ ان دوستوں کی تمام باتیں ندیم حیدر کی باتوں کی تائید کر رہی تھیں۔ چند ہفتے قبل سوشل میڈیا پر مولانا نقی ہاشمی کا ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ بھی شیئر کیا گیا، جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو بیان کیا اور بہترین حل پیش کیا۔ نقی ہاشمی نے قائد شہید علامہ عارف ح
سین الحسینی (رہ) کی زندگی کا ایک اہم واقعہ بیان کیا کہ قائد شہید نے آغا حامد علی شاہ کو چیلنج کرکے کہا تھا کہ آغا جان اگر آپ سمجھتے ہیں کہ قیادت کا مسئلہ عوام میں حل ہوسکتا ہے تو آپ بھی آئیں میں بھی آتا ہوں، دونوں اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ جسے چاہیں اپنا رہنماء اور قائد بنالیں۔
اس کے بعد قائد شہید نے ایک اور آپشن بھی پر بات کی اور کہا کہ اگر سید حامد سمجھتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ خواص حل کرسکتے ہیں تو یہ معاملہ ان کے سامنے رکھتے ہیں وہ جو فیصلہ کریں وہ بھی مجھے قبول ہے۔ قائد شہید کہتے ہیں کہ اگر آغا حامد موسوی آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پاکستان میں حل ہونے والا نہیں ہے اور اسے ہمارے دینی مرکزی یعنی قم اور نجف میں حل کیا جاسکتا ہے تو یہ معاملہ وہاں لے جاتے ہیں وہ جو فیصلہ کریں اس پر عمل کرلیں گے۔ قائد شہید نے کہا کہ اگر ہمارے کسی ایک بھی مرکز نے آپ کے حق میں فیصلے دیدیا تو عارف حسینی وہ پہلا شخص ہوگا کہ جو آپ کی قیادت میں پاکستان میں کام کرے گا۔ مولانا نقی ہاشمی نے مزید کہا کہ ہماری پشت خالی نہیں ہے۔ ہماری بیک پر نظام موجود ہے، جس کی روشنی میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا کہ یہ مسئلہ عوام اور یہاں کے خواص حل نہیں کرسکتے تو ہم ملک سے باہر قائم دینی مراکز میں جانے کیلئے تیار ہیں اور وہ جو فیصلہ دیں ہم قبول کرلیں گے۔
آغا نقی ہاشمی نے بہترین حل پیش کیا۔
میری ناقص رائے کے مطابق بجائے اس کے ہم ملک میں بیٹھ کر یہ فتویٰ دیں کہ الیکشن میں حصہ لینا قوم کے مفاد میں نہیں یا حرام ہے یا استعماری نظام کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے تو ہمیں اس سلسلے میں اپنے دینی مراکز سے رابطہ کرنا چاہیے وہ جو فیصلہ دیں، اسے قبول کرلینا چاہیے۔ ویسے تو آیت اللہ بہاؤالدینی نے ہماری مشکل حل کر دی، لیکن بات وہی قبولیت کی ہے۔ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم نظام کے تابع ہوکر اسے قبول کرلیں یا خود کو ہی عقل کل سمجھتے ہوئے صفین برپا کر دیں۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ ہمارے الیکشن میں حصہ نہ لینے سے ہمارا دشمن کمزور ہوگا یا مضبوط؟ اگر دشمن مضبوط ہوتا ہے تو میں وہ پہلا شخص ہونگا جو گیارہ مئی کو اپنا ووٹ کاسٹ کروں گا اور اپنے دشمن کیلئے ہر صورت میدان خالی نہیں چھوڑوں گا۔ بھلے اس ووٹ کی مثال اس چڑیا کی ہی کیوں نہ جو آگ بجھانے کیلئے اپنی چونچ میں پانی بھر کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو پیغام دے جاتی ہے کہ بھلے آگ بجھے نہ بجھے لیکن میں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی، روز قیامت میرا شمار آگ لگانے والوں میں نہیں بلکہ بجھانے والوں میں ہوگا۔ آخر میں ان دوستوں کیلئے پیغام ہے جو اچانک سے ایک تنومند درخت کے ابھر آنے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، برادران یہ امید منطقی نہیں عقل انسانی یہی کہتی ہے کہ پودا لگائے بغیر، اس کی پروش کے لیے درکار وقت اور وسائل صرف کئے بغیر درخت کا تقاضا کرنا دانشمندی نہیں۔