ماہ خدا اور ہماری ذمہ داریاں
ماہ مبارک رمضان کی آمد آمد ہے، خدائے بزرگ و برتر کا دسترخوان بچھنے کو ہے، رحمت خدا کے دروازے بس کھلا ہی چاہتے ہیں، عاشقان خدا پورا سال اس ماہ کا انتظار کرتے ہیں، عبادت گذار شدت سے منتظر ہوتے ہیں کہ کب یہ ماہ آئے اور ہم اس کے شب و روز میں بندگی خدا کریں۔ صاحب معرفت، اہل خیر اس ماہ کے انتظار میں ہوتے ہیں، تاکہ اس ماہ میں اپنی تجوریوں کے منہ بندگان خدا کے لیے کھول دیں۔ اے اہل ایمان، اللہ کا رحمتوں سے بھرپور مہینہ تمہاری طرف آ رہا ہے، وہ ماہ جس کے دن عام دنوں سے بہتر ہیں، جس کی راتیں عام راتوں سے بہتر ہیں، ایسا عظیم مہینہ جس میں سانس لینا حتٰی سونا بھی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ یہ ماہ گناہ گاروں کے لیے امید کا ماہ ہے، اس میں خدائے مہربان منتظر ہوتا ہے کہ میرے گناہ گار بندے آئیں، صدق دل سے توبہ کریں، میں ان کی توبہ کو قبول کروں، اس ماہ کو قرآن کی بہار قرار دیا گیا ہے۔ اہل ایمان کا قرآن سے رابطہ بڑھ جاتا ہے اور اہل ایمان صبح شام تلاوت قرآن سے دلوں کو منور کرتے ہیں، ماہ توبہ، ماہ عبادت، ماہ سخاوت اور ماہ قرآن آرہا ہے۔ پیغمبر گرامی اسلام (ص) و اہلیبیت پیغمبر (ع) اس ماہ کا انتظار کرتے، اس کے لیے خاص اہتمام فرماتے، عبادات کو بڑھا دیتے راہ خدا میں پہلے سے زیادہ خرچ کرتے۔
ہم مسلمان معاشروں میں زندگی کرتے ہیں، ماہ رمضان کے آنے سے ہماری روز مرہ کی زندگی میں کچھ تبدیلی ضرور آتی ہے، ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے اس ماہ میں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ماہ رمضان میں خدا ہم سے کیا طلب کر رہا ہے اور ہم اپنی اور معاشرے کی بہتری کے لیے اس ماہ سے کیسے بہتر انداز میں استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس ماہ میں معاشرے کے ہر فرد میں بہتری آنی چاہیے۔ ہمارے کردار سے پتہ چلے ہم ماہ خدا میں داخل ہوچکے ہیں، معاشرے کے ہر گروہ کی الگ ذمہ داریاں ہیں۔ استاد اس ماہ میں اپنے طلبہ کو اسلامی اقدار و اخلاقیات کی تعلیم دیں، طلبہ شوق و رغبت سے ان تعلیمات کو سیکھیں اور اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
ڈاکٹر حضرات اپنا اخلاقی اور دینی فریضہ سمجھتے ہوئے مریضوں کی خدمت میں اضافہ کر دیں، دکاندار اور کارخانہ دار کم قیمت پر معیاری اشیاء فراہم کریں، تاکہ غریب مسلمانوں کو کم سے کم دقت ہو، علمائے کرام مساجد میں محافل قرآنی اور فہم دین کے پروگرام تشکیل دیں، جس میں بالخصوص نوجوانوں کی دینی، فکری تربیت کریں۔ ملی تنظیمیں لوگوں کے دین کی طرف متوجہ ہونے کا فائدہ اٹھائیں۔ اس کا مثبت استعمال کرکے معاشرے کے بگاڑ کو ختم کریں، کوئز پروگرامز کے مقابلے منعقد کرائیں، اسلامی معلومات کو مختلف کتابچوں اور پمفلٹ کی صورت میں پرنٹ کرکے لوگوں میں تقسیم کریں، تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کریں۔
ہمارے سوشل میڈیا کے دوست اخلاقی احادیث کو عام کریں، دینی معلومات کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں، غیر اخلاقی مواد کی حوصلہ شکنی کریں۔ صاحب ثروت لوگ جن کو خدا نے مال و دولت سے نوزا ہے، وہ اس ماہ میں خدا سے تجارت کریں، کیونکہ خدا سے کی گئی تجارت اس دن کام آئے گی جس دن کوئی مال و دولت پاس نہ ہوگا، انسان خالی ہاتھ اس کے دربار میں کھڑا ہوگا اور ایک اہم بات دنیا کی ہر تجارت میں نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، اس تجارت میں نقصان کا خطرہ نہیں بلکہ کئی گنا منافع دیا جائے گا۔ انفرادی طور پر خدا سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں، نماز باجماعت میں شرکت کریں، جھوٹ اور غیبت سے پرہیز کریں، دل سے کینہ نکال دیں، قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں، ماہ دعا ہے، دعا کا خصوصی اہتمام کریں، اگر کسی سے ناراضگی ہے تو اسے ختم کریں۔ روزہ کا مقصد تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے، یہ ایک ایسی صفت ہے، جو انسان میں پیدا ہو جائے تو انسا ن ایک مثالی انسان ہوگا۔ دسترخوان خدا بچھنے کو ہے، یہ صرف کھانے پینے کا دسترخواں نہیں ہے، یہ دسترخوان علم و معرفت و ہدایت و تقویٰ بھی ہے۔ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی رحمت کے صدقے میں اس دسترخواں سے مستفید ہونے کی توفیق دے۔ آمین