جب آل سعود نے جنت البقیع کو مسمار کر کے قلب رسول کو مجروح کیا
تاریخ اسلام میں ظہور اسلام سے لیکر ساتویں صدی تک ،حتی ظہوراسلام سے پہلے بھی اسطرح کا کوئی سوال نہ تھا کہ ،قبور کو تعمیر اور انکو آباد کرنا شرک ہے ؟ کیونکہ قبروں کی تعمیر اور انکو آباد کرنے کا جواز اظہرمن الشمس تھا،اوراسکے جواز کی مکمل دلیل تقریر معصوم ہے ،اگر یہ فعل ، فعل شرک ہوتا تو سکوت معصومین محال تھا ،کیونکہ اس زمانہ میں بہت سے انبیاء اور اولیاء خدا کی قبریں مختلف مقامات مثلا مصر، عراق،فلسطین ، شام ،اردن وغیرہ میں تعمیر شدہ تھیں ،اور لوگوں کی زیارت گاہیں بنی ہوئی تھیں
لیکن گیارھویں صدی کی آغوش میںپرورش پانے والاعبدالوہاب نجدی جب بارھویں صدی میں قدم رکھتا ہے تو ابن تیمیہ کے اصولوں کے مطابق ایک ایسے مذھب کو جنم دیتا ہے کہ جس میں فتن وفساد،فسق وفجورکے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ، وہ اس مذھب کو حامی اسلام قرار دیتا ہے جبکہ اس سے بڑھکر دشمن اسلام کوئی نہیں ہے ،کیونکہ جس وقت سے یہ مذھب منظر عام پر آیا ہے آ ثار اسلام کو مٹانے اور اسکو ختم کرنے کا عہد کر لیا ہے،لہذاجب بھی کسی شی کو مٹانا یا ختم کرنا چاہا تو سب سے پہلے اس پر شرک کا فتوی لگایا ۔ چنانچہ کعبہ کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا تو کہا شرک ہے ،انبیاء واولیا ء کے قبروں پرہجوم دیکھا تو کہا شرک ہے ،انکی قبروں کو تعمیر شدہ وآباد دیکھا تو کہا شرک ہے
اسی بناء پر جنت البقیع جیسی عمارت کو جس میں چار امام مدفون تھے شرک کا فتوی لگاکر منہدم کردیا
یہ وہابیت کا ١٣٤٤ ھ میں برسر اقتدار آنے اورآل سعود کو خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کارنامہ تھا کہ مکہ اور مدینہ پر مسلط ہوکر مقامات مقدسہ ،جنت البقیع ،اصحاب اور خاندان رسالت کے آثار کو مسمار کردیا ،اور اس فعل کی انجام دھی کے لئے اس نے خصوصا اھل حجاز کو ،کہ جو اس کام پر راضی نہ تھے اپنے ساتھ رکھا اور اپنے نجد کے قاضی القضات ”سلیمان ابن بلیہد”کو مدینہ روانہ کیا ،تاکہ وہاں کے علماء سے بھی فتاوی حاصل کرلیں ، ولو بالجبر۔
اور جب علماء مدینہ سے جبرا اپنے موافق فتاوی حاصل کر لئے تب قبروں کے انہدام اور عمارتوں کی تخریب میں ہاتھ لگایا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس کام میں شیعہ تو شیعہ سنّی بھی مخالف ہونگے
مرحوم محسن امین اپنی کتاب کشف الارتیاب (ص ،٦٥)پر لکھتے ہیں کہ” وہابیت ١٣٤٤ ھ میں برسر اقتدار آنے کے بعد مکمل طور پر قابض ہوئی اور پھراسی صدی میں اس نے جنت البقیع کو منہدم کردیا”
موضوع کے مد نظر ہماری گفتگو پہلے مبداء شرک اور حقیقت شرک پر ہے اس کے بعد عدم وجود شرک پر
١) مبداء شرک وحقیقت شرک : وہابیوں کے نزدیک علت انہدام قبور بس یہ ہے کہ” پیغمبر واولیاء خدا کی قبروں کی تعمیر یا اس پر عمارت (یعنی روضہ )بناناحرام ہے اور اگر قبریں یا ان پر عمارت ہوں تو انہدام واجب ہے ” اس مسئلہ کی بنیاد ابن تیمیہ کے شاگرد ابن القیم نے ساتویں صدی میں رکھی تھی ،وہ اپنی کتاب ”زاد المعاد”(ص ٦٦١) پر لکھتا ہے کہ : ”یجب ھدم المشاھد التی بنیت علی القبور ولایجوزابقاء ھا بعد القدرة علی ھدمھا وابطالھا یوما واحدا ”(قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوںکو ڈھانا واجب ہے اور امکان انہدام وویرانی کی صورت میں ایک روز بھی تاخیر جائز نہیں ہے )
وہابی اس مسئلہ کی اتباع میں ابن القیم کو اپنا رہبر بناتے ہیں اور اس کے قول کو اپنے گلے لگا کر شرک کا فتوی صادر کرتے ہیں ، اور دوسری چیز کہ جس کا سہارا لیکر وہابی ان افعال کو انجام دیتے ہیں وہ یہ ہے (١)کہ علماء اسلام کا اسکی حر مت پر اجماع ہے ابی الھیاّج کی امیر المومنین سے نقل شدہ حدیث ۔
پہلی دلیل کہ علماء اسلام کا اس کی حرمت پر اجماع ہے صریحاّ غلط ہے ، اور یہ مشاہدات میں سے ہے ، اور دوسری دلیل حضرت علی سے نقل شدہ حدیث ہے کہ جسکو صحیح مسلم کتاب الجنائز جلد ٣ ص ٦١، اور سنن ترمذی جلد ٢ص ٢٥٦ پر نقل کیا ہے ، اسکا متن یہ ہیکہ ، صحیح مسلم کے مولف تین افرد بنام یحی ٰ ، ابو بکر اور زبیر سے نقل کرتے ہیں کہ وکیع ،سفیان سے ، سفیان حبیب سے ، حبیب ابی وائل سے ، اور ابی وائل ابی الھیاّج سے نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب نے ابی الھیاّج سے فرمایا کہ میں تمھارے ذمہ وہ کام لگا رہا ہوں کہ جو پیغمبر اسلام (ص) نے میرے سپرد کیا تھا ، وہ یہ ہیکہ :” ا ن لا تدع تمثالا طمستہ ولا قبرامتر فاالاسویتہ” جو تصویر نظر آئے اسے مٹا دو اور ہر بلند قبر کو برابر کر دو ۔۔۔ وہابیوں نے زیادہ تر اس حدیث کا سہارا لیکر تعمیر قبر پر شرک کا فتوی ٰ لگا یا اور انکے انہدام کو واجب سمجھا ، لیکن کبھی بھی اس حدیث کے بارے میں غور و فکر نہ کیا کہ اس حدیث کا راوی مورد اطمینان و ثقہ ہے کہ نہیں ، علم رجال کی روشنی میں جب اس حدیث کے راویوں پر غور کر ینگے تو معلوم ہوگا کہ یہ حدیث مورد اطمینان نہیں ہے ، کیونکہ پانچ راویوں میں سے اسکا کوئی بھی راوی تمام حدیث شناس علماء کی نظر میں قابل اعتماد نہیں ہے ۔
پہلا راوی ”وکیع”کہ جسکے بارے میں کتاب تہذیب التھذیب جلد ١١ ص ١٢٥ پر امام احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :انہ اخطا فی خمس ما ة حدیث ، اس نے پانچ سو حدیثوں میں خطا کی ہے ۔
دوسرا راوی ”سفیان ” کہ جس کے بارے میں اسی کت
اب کی جلد ٤ص ١١٥ پر ابن مبارک سے نقل کرتے ہیں کہ : حدث سفیان بحدیث فجئتہ وھو یدلّسہ فلما رأنی استحیی ، سفیا ن حدیث سنا رہا تھا کہ میں اچانک وہا ں پہونچا دیکھا کہ وہ حدیث میں تدلیس کر رہا ہے ( اپنی طرف سے کمی و زیادتی کر رہا ہے ) اس نے جب مجھے دیکھا تو بہت شرمندہ ہوا ۔
تیسرا راوی ”حبیب ابن ثابت ”کہ جس کے بارے میں قطان سے منقول ہے کہ : لا یتا بع علیہ ولیست محفوظة، اسکی نقل شدہ احا دیث پر عمل نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ اس کی منقولہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں ۔
چوتھا راوی ”ابی وائل ” کہ جس کے بارے میں شرح حدیدی جلد ٩ ص ٩٩ پر ملتا ہیکہ اس کا تعلق ناصبیو ں اور امیر المومنین علی کے مخالفین میں سے تھا ۔
پانچواں راوی ”ابی الھیا ّج ” یہ وہ ہے کہ جس کی صحاح ستہ میں فقط ایک حدیث نقل ہے اور جو صرف ایک ہی حدیث کا راوی ہو وہ بھی اس حدیث کا تو اس پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔
اور اگر ہم ان تینوں سند ،ترجمہ اور اجماع کو صحیح مان لیں تو اس پر چند اشکال وارد ہوتے ہیں ۔
١)اگر ہم سند حدیث کو صحیح تسلیم کر لیں تو انکا کیا ہوا ترجمہ ہمارے لئے مورد اشکال ہوگا کیوں کہ قرائن کو مد نظر رکھتے ہوے لغت کے مطابق مساوی سے مراد قبروں کو اونٹ کے کوہان کے مانند بنانے کے بجائے انھیں مسطح اور یکساںقرار دینا ہے
اس لئے کہ قبروں کو زمین کے مساوی کرنا سنت اسلامی کے خلاف ہے سنت تو یہ ہیکہ قبر زمین سے کچھ بلند ہو ۔
٢) اگر ہم سند و ترجمہ دونوں اعتبار سے حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو پھر یہ اشکال ہوگا کہ حضرت علی نے اپنے دور حکومت میں تمام تعمیر شدہ قبروں کو کیوں نہیں ڈھایا ، اگر قبروں کی تعمیر شرک ہے اور انکا ڈھا دینا واجب ہے تو پھر دوسرے خلفاء نے اپنے دور حکومت میں تعمیر شدہ قبروں کو کیوں نہیں ڈھایا ، بالخصوص خلیفہ ٔ ثانی نے بیت المقدس کو فتح کیا تو وہاں پر پیغمبروں کی قبروں کے آثار موجود تھے ،انکو کیوں نہیں مٹایا ، کیا انھوں نے اپنے زمانے کے مشرکوں سے ہاتھ ملا رکھا تھا ۔
افسوس ہے علماء مدینہ کے فتووں اور انکے دئے ہوے جوابات پر کہ قبروں پر عمارت بنانا صحیح احادیث کی روشنی میں تمام علماء کے نزدیک منع ہے ، اس بنا پر تمام علماء نے اسکے انہدام کے واجب ہونے کا فتوی ٰ دیا ہے ۔
اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ سات صدیوں تک تمام علما ء اسلام نے جس مسئلہ پر ایک لفظ
نہ کہا ،بارہویں صدی میں وہابیت کے مسلط ہونے کی بنا پر علماء اسلام کا اجماع ہو گیا ۔
٣)اگر اجماع کو بھی تسلیم کر لیں تب بھی مورد اشکال ہوگا ، کہ کیا اجماع فقط جنت البقیع اور دیگر آثار مخصوصہ کو مٹانے کے متعلق ہے ؟نہیں کیونکہ حدیث مطلق ہے اور جب حدیث مقید نہیں تو وہابیوں نے روضہ رسول (ص) کو کیوں نہیں معاذ اللہ ڈھایا
انکے فتوے اور مسئلے کے مطابق تو اس کو بھی باقی رکھنا حرام ہے ، کیا اسکو عائشہ ام المومنین کا گھر سمجھ کر باقی رکھا ہے یا صحابہ کے مدفون ہونے کے احترام میں چھوڑ رکھا ہے اسکا جواب تو وہی دینگے کہ جنھوں نے ان تمام بدعتوں کو پھیلایا ہے لیکن انکے اعمال سے اتنا ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ انکی رگوں میں ابھی بھی اسی سرعت سے اموی و سفیانی خون دوڑ رہا ہے ، اور انھیں کے عزم و ارادہ کو یہ اپنے دوش پر بار کئے ہیں انکی پوری سازش یہ ہیکہ آثار آل محمد کو ختم کر دیں ، لہذٰا جنت البقیع کو منہدم کرنے کے بعد بھی انکی تحریک جاری رہی ، علماء سے جعلی فتوے تو صرف اس لئے حاصل کئے کہ کوئی اس کام میں مداخلت نہ کرے ۔
٢)عدم وجود شرک :قبروں کی تعمیر اور اس کو آباد کرنا تو قرآن و حدیث کی روشنی میں چند پہلوؤں سے ثابت ہے ۔
١)قرآن مجید سورہ کھف آیت ٢١ میں اصحاب کھف کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب اصحاب کھف دوبارہ غار میں آئے اور جوار رحمت حق میں منتقل ہو گئے تو دوگروہ وہاں پر پہونچے ، ایک گروہ مخالف تھا ، جو چاہتا تھا کہ اس واقعہ کو پوشیدہ رکھ اجائے چناچہ انھوں نے کہا : ابنوا علیھم بنیایاّ ، اس قبر کے اوپر عمارت بنائو تاکہ لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں ، دوسرا گروہ جو اس امر میں کامیاب ہوا تھا اس واقعہ کو زندہ رکھنا چاہتا تھا لہذٰا کہا :لنتخذ نّ علیھم مسجداّ، ہم اس جگہ کو مسجد قرار دینگے ، قرآن نے ان دونوں نظریہ کو نقل کیا ہے لیکن کسی کی مذمت نہیں کی اگر ان دونوں گروہوں میں سے کسی کا بھی نظریہ باطل ہوتاتو قرآن ان پر تنقید ضرور کرتا، لہذٰا قرآن کا ان دونوں نظریوں پر تنقید نہ کرنا اور اعتراض آمیز پہلو اختیار نہ کرنا اس بات کی مکمل دلیل ہے کہ اولیاء خدا و صالحین کی قبروں کی تعمیر اور انکو آباد کرنا شرک نہیں بلکہ جائز ہے ۔
٢)سورہ حج آیت ٣٢ میں خدا وند فرماتا ہے کہ : و من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقو ی القلوب ، جو شخص بھی شعائراللہ (یعنی اللہ کے دین کی نشانیوں ) کی تعظیم کرتا ہے یہ قلوب کے تقوی کی علامت ہے معلوم ہوا کہ اس کے دین کی جتنی بھی نشانیا ں ہیں اسکی تعظیم و تکریم کرناخوشنودی پروردگار کا سبب ہے ،پس اگر تم صفا و مروا کو شعائر اللہ کہتے ہو ، مزدلفہ کو شعائر اللہ کہتے ہو ،منی ٰ میں قربان ہونے والے جانور کو شعائر اللہ کہتے ہو تو پھر انبیاء و اولیاء خدا تو بدرجہ اولی ٰ شعائر اللہ ہیں کیونکہ یہ دین الھٰی کی روشن ترین دلیلیں ہیں اور بزرگ ترین نشانیاں ہیں انھیں کے قوت بازو سے پرچم اسلام بلند ہوا
انھیں کی سیرت دیکھ کر عدل و انصاف کا نظام قائم ہوا جب یہ شعائر اللہ ہیں تو انکی تعظیم ضروری ہے ، اور تعظیم کا ایک طریقہ یہ ہیکہ انکے آثار و قبور کی حفاظت کی جائے نہ یہ کہ ان کو منہدم کر دیا جائے ۔
٣)شوری ٰ کی آیت ٢٣ قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی ٰ ، صریحا اہلبیت کی شان میں نازل ہوئی کہ جس میں لوگوں کو اہلبیت کی محبت اور مودت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اگر عالم اسلام سے سوال کیا جائے کہ اہلبیت سے محبت و مودت کی کیا روش ہے تو حتمی طور سے عالم اسلام جواب دیگا کہ تمام روشوں میں سے ایک روش یہ بھی ہے کہ انکی قبروں کو تعمیر اور انکو آباد کیا جائے یہ طریقہ تمام ملتوں میں رائج ہے کہ وہ تعمیر قبر کو صاحب قبرسے اظہار محبت و عقیدت کی علامت سمجھتے ہیں اب جن لوگوں نے جنت البقیع کو منہدم کیا وہ صرف شعار اللہ کی ہی اہانت نہیں کر رہے ہیں بلکہ قرآن کے خلاف آواز بلند کرر ہے ہیں جبکہ قرآن قبروں کی تعمیر کو اور ان کو آ باد کرنے کو جائز بتا رہا ہے ۔
٤)آباد کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہیکہ لوگ اس کی زیارت کو جائیں ، اسکے متعلق پیغمبر اسلام (ص) کی متعدد حدیثیں خود اہلسنت کی کتابوں میں مرقوم ہیں ”صحیح ابن ماجہ جلد ١ ص ١١٣ پر پیغمبر اسلام (ص) سے نقل ہے کہ : قال رسول اللہ (ص) زوروا القبور فانھا تذ کرکم الآ خرة ، قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرو اس سے آخرت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے نیز پیغمبر اسلام (ص) خود قبروں کی زیارت کے لئے جنت البقیع جایا کرتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم جلد ٣ ص ٦٣پر عائشہ سے نقل ہے کہ پیغمبر اسلام شب کے آخری حصہ میں جنت البقیع میں جاکر فرماتے تھے :السلام علیکم دار قوم مومنین و اتاکم ما تو عدون غدا موجلون و انا ان شا ء اللہ بکم لاحقون اللھم اغفر لاھل البقیع الغر قد ،
معلوم ہوا کہ قبروں کی زیارت اور انکو آباد کرنا سیرہ پیغمبر اکرم (ص) ہے لیکن اگر کسی کی قبر پر جانے سے روکا گیا ہے تو وہ منا فقین ہیں جیسا کہ سورہ توبہ آیت ٨٤ میں خدا وند فرماتا ہے کہ : ولا تقم علی ٰ قبرہ للد فن او لزیارة ، ان منافقین کی قبرپر نہ انکے دفن کی خاطر کھڑے رہو اور نہ ہی انکی زیارت کے لئے ۔
نتیجہ : نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انبیا ء و اولیاء خدا و صالحین و مومنین کی قبروں کی تعمیر اور انکو آباد کرنا شرک نہیں ہے بلکہ منافقین کی قبروں کو آباد کرنا شرک ہے لیکن جو فرقہ اس کے بر عکس فعل کو انجام دے رہا ہے اسکے بارے میں آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ وہ مومنین میں سے ہے یا منافقین میں سے ۔