جنسی درندگی کا دوسرا نام ، جہاد النکاح
شیعت نیوز ( انٹرنیشنل ڈیسک ) مصر کے النھار نامی عرب روزنامے کی یہ خبر پوری دنیا میں تہلکہ مچا گئی کہ شام کے شہر حلب میں شامی دہشت گرد گروہ جبہۃ النصرہ کے ایک مرکزی لیڈر نے قطر کے الجزیرہ ٹی وی چینل کی اینکرپرسن غادہ عویس کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔واقعہ کچھ یوں تھا کہ وہ اپنے چینل کے عملے کے ساتھ کئی دنوں سے شامی حکومت کے مخالفین کی کوریج کررہی تھیں۔ایک روز وہ جبہۃ النصرہ ( النصرہ فرنٹ) کے ایک مرکزی لیڈر کے انٹرویو کے لئے گئیں توانہیں اندر جانے دیا فیا لیکن ان کے عملے کو باہر روک دیا گیا اور انہیں انٹرویو کیلئے دوسرے روز آنے کے لئے کہاگیا۔
بعد ازاں عملے کو معلوم ہوا کہ غادۃ عویس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے تو وہ حلب کی سرحد پر واقع ملک ترکی کے راستے فرار ہوگئے۔غادۃ عویس کی جانب سے پہلےیہ بیان آیا کہ وہ اس زیادتی کی شکایت کرتی ہیں اورجبہۃ النصرۃ کی قیادت زیادتی کرنے والے لیڈر کے خلاف کارروائی کرے۔ لیکن اس کے بعد غالباً قطر کی حکومت کی مداخلت پر معاملے کو دبادیا گیا ۔ دوسری جانب جبہۃ النصرۃ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ غادہ عویس نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو جہاد النکاح کیلئے پیش کیا تھا اور جہاد النکاح ایک باعث افتخار کام ہے اور ایسا کرنے والی خواتین کو کئی درجہ زیادہ ثواب ملتا ہے۔
جہاد النکاح کی اصطلاح سلفی وہابی سعودی مفتی محمد عبدالرحمان ال عریفی نے ایجاد کی ہے ۔ سعودی عرب کی شاہ سعود یونیورسٹی کے معلم ال عریفی نے شامی دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو سال سے شام کے محاذ پر مصروف (نام نہاد) مجاہدین کی جنسی خواہشات پوری نہیں ہورہیں لہٰذا ان کی جنسی تسکین کے لئے خواتین خود کو جہاد النکاح کے لئے پیش کریں۔اس فتوے کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں تیونس سے خبر آئی کہ ایک درجن سے زائد لڑکیاں جہاد النکاح کے لئے شام روانہ ہوگئیں اور ان کے والدین ان کے لئے پریشان ہیں۔
سعودی سلفی وہابی مولوی ال عریفی بیان بدلنے کا ماہر ہے ۔ الجزیرہ چینل پر گفتگو میں اس نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی تعریف کی اور ان دہشت گردوں کا دفاع کیا لیکن ایک ہفتے کے اندر ٹوئٹر پر اس نے اپنے بیان کے برعکس دوسرا بیان دیا۔اسی طرح ایک اور سلفی وہابی عرب مولوی نے شامی دہشت گردوں کی جنسی تسکین کے لئے علوی اور غیرمسلم خواتین کی عصمت دری کو جائز قرار دیا۔یاد رہے کہ جہاد النکاح ثواب کا کام سمجھ کر انجام دینے کی ترغیب دی گئی ہے یعنی سنی مسلمان خواتین کو اس کام کی جانب راغب کیا گیا ہے۔ بہر حال خواتین مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، ان کا احترام مسلمانوں پر ہر حال میں لازم ہوتا ہے۔ اسلام میں جنگ کے جو قوانین و اصول ہیں اس کے تحت بھی بچے ، بوڑھے اور خواتین کو جنگ سے معاف رکھاجاتا ہے اور ان پر حملے نہیں کئے جاتے ۔
عرب اور مغربی ذرائع ابلاغ نے تیونس کی سولہ سالہ عائشہ کے والدین کا شکایتی موقف بھی نشر کیا تھا کہ ال عریفی کے فتوے کے بعد ان کی بیٹی شام روانہ ہوگئی ۔ چار اپریل سال ۲۰۱۳ ع کوایک برطانوی اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ تیونس کی تیرہ لڑکیاں جنسی جہاد کے لئے شام روانہ جبکہ دیگر میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے ۔ دوسری جانب تیونس کے وزیر مذہبی امور نے خواتین اور لڑکیوں سے اپیل کی ہے کہ غیر ملکی مفتیوں کے فتووں کو تسلیم نہ کریں اور جنسی جہاد کے فتوے پر کان نہ دھریں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بد بخت سعودی و دیگر سلفی مفتیوں نے جہاد النکاح اور جنسی زیادتی کے حق میں فتوے جاری کئے ہیں۔
تیونس بھی عرب ملک ہے اور وہ ہم سے زیادہ اپنی زبان عربی کو سمجھتے ہیں، اگر فتوے نہ دیئے گئے ہوتے تو سادہ لوح لڑکیاں اور خواتین کیوں شام کا رخ کرتیں۔ حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں نے اسے زنا اور زبردستی کی شادی کا نام دیا ہے جبکہ جہاد النکاح کو سیکس جہاد کی اصطلاح سے یاد کیا جارہا ہے۔صرف یہی نہیں ہورہا، بے یار و مددگار شامی خواتین دیگر ممالک میں قائم مہاجر کیمپوں میں بھی جنسی درندوں کی ناجائز ہوس کا نشانہ بن رہی ہیں۔
شام کی سرحد پر واقع ترکی میں قائم شامی مہاجرین کے کیمپوں اور اردن کے زعتری کیمپ اور لبنان کے شامی مہاجر کیمپوں میں شام کی نوجوان خواتین کے ساتھ مسلح دہشت گردوں اور وہاں تعینات کئے گئے گارڈزنے جنسی زیادتی کی اور بعض دہشت گردوں نے ترکی کے کیمپوں میں موجود لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی کی، ان کی وڈیو بنائی اور دھمکی دی کہ راز فاش کیا تو وڈیو نشر کردیں گے۔ان دہشت گردوں نے ترکوں کو یہ لڑکیا ں جنسی تسکین کے لئے فروخت بھی کردیں۔یہی اطلاعات اردن کے کیمپوں سے بھی آئی ہیں ۔ شام کے وہ علاقے جو دہشت گردوں کے قبضے میں تھے وہاں سے خواتین کی نقل مکانی کا ایک بڑا سبب ہی یہی تھا کہ وہاں ان کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں اور جہاد النکاح کے نام پر ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جارہی تھی۔
شام میں ادلیب کے علاقے عریف میں بھی لڑکیوں اور بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ اور تو اور ان مسلح باغیوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کی گئی جو شامی افواج کے خلاف برسرپیکار تو تھے لیکن ادلب کے علاقے معارت ال نعمان کے دو محاذوں سے پسپائی اختیار کرکے فرار ہورہے تھے۔بین الاقوامی ریلیف ادار
ے انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں اجتماعی زیادتی کی نشاندہی کی ہے۔اقوام متحدہ کی شعبہ پناہ گرین کی ایک اعلی سطحی عہدیدار ایریکا فیلر نے بھی خواتین سے بدسلوکی کو تسلیم کیا تھا۔چونکہ شام کی عرب حکومت کے خلاف بغاوت اور حزب اختلاف کے نام سے کام کرنے والے امریکا، اسرائیل اور ان کے اتحادی عرب ممالک کی نیابتی جنگ (پراکسی وار) لڑ رہے ہیں اسی لئے ان کے ان کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالا جارہا ہے۔یاد رہے کہ مسیحی لڑکیوں کو بھی ان وحشیوں نے جنسی تسکین کی بھینٹ چڑھایا ہے۔
جہاد النکاح اور جنسی زیادتی کی اجازت کے فتوووں نے کتنی پاک باز مسلم خواتین کی عزتیں تار تار کی ہیں اور کتنی خواتین کو ناجائز طور پر حاملہ کردیا ہے، اس کا کوئی تدارک نہیں کرسکتا۔سلفی وہابی مفتیوں کی پوری تاریخ جاہلانہ اور منحرف نظریات کی پیروی سے بھری پڑی ہے۔ برطانوی سامراج سے امریکی سامراج تک سبھی ان سعودی نجدی ملاؤں اور ان کے سرپرست سعودی عرب کو اپنے لئے قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ شام میں بشار الاسدکی فلسطین دوست آزاد عرب حکومت اور شامی عوام کے خلاف کام کرنے والے دہشت گردوں کو سعودی شہزادے بندر بن سلطان کی پشت پناہی حاصل ہے ۔شاید بندر بن سلطان عرب کی نئی نسل کو اپنے جیسا دیکھنا چاہتا ہے۔ اپنے جیسے کی وضاحت کے لئے بندر بن سلطان کے دوست اور رائل ایئر فورس میں اس کے ساتھ زیر تربیت رہنے والے شخص ولیم سپمسن کی کتاب دی پرنس، دی سیکرٹ اسٹوری آف دی ورلڈ،ز موسٹ انٹری گوئنگ رائل ، پرنس بند بن سلطان پڑھیں جس کے انٹروڈکشن (تعارفی باب) میں تحریر ہے کہ وہ پرنس سلطان بن عبدالعزیز کی ناجائز اولاد ہے۔خدا اس کے شر سے سب کو محفوظ رکھے۔