حضرت امام جعفر صادق (ع)
حضرت امام جعفر صادق (ع) 17 ربیع الاول 83 ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے، آپ خاندان اہلبیت (ع) کے عظیم فرزند تھے۔ آپ (ع) کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔ جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام۔ آپ (ع) کا زمانہ مسلمانوں کے داخلی انتشار کا زمانہ ہے۔ بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ بنو عباس حکومت پر تسلط قائم کر رہے ہیں، اس لحاظ سے سیاسی بدامنی ہے اور مذہبی اور فکری لحاظ سے بھی آپ کا زمانہ انتہائی اہم ہے۔
صحابہ کرام کی بڑی تعداد دنیا سے رخصت ہو چکی ہے، فقط چند اصحاب بقید حیات ہیں۔ تابعین کا دور ہے۔ عباسی حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی فلسفہ یونان کا عربی میں ترجمہ کرایا جاتا ہے اور تمام علمی محافل میں فلسفی ابحاث کا آغاز ہو جاتا ہے۔ عالم اسلام میں فکری اضطراب کی ایک لہر اٹھتی ہے۔ ان حالات میں امت مسلمہ کی نگاہیں اس خاندان کی طرف اٹھتی ہیں جو مرکز رشد و ہدایت ہے، جس گھرانے نے دنیا کو اسلام دیا۔ جہاں سے خیرات علم تقسیم ہوتی ہے۔ جن کا دسترخوان علم بہت وسیع ہے اور ہر آنے والا اپنے ظرف کے مطابق حصہ پاتا ہے۔
آپ نے تمام حالات کا انتہائی باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت زیادہ افرادی قوت کی ضرورت ہے، کیونکہ اسلامی سلطنت خطہ عرب کی سرحدیں پار کرتی ہوئی ایران، روم اور ہندوستان تک جا پہنچی ہے۔ اس لیے آپ نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک عظیم یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی، تاکہ ان تمام فتنوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ مدینہ منورہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس مقام ہے، جہاں دینا بھر کے مسلمان روضہ رسول (ص) کی زیارت کے لیے جوق در جوق آتے ہیں۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ کی یہ یونیورسٹی پورے عالم اسلام میں مشہور ہو جاتی ہے۔ علماء نے اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علموں کی تعداد چار ہزار تک بیان کی ہے۔
آپ کی یونیورسٹی میں تمام علوم پڑھائے جاتے تھے اور آپ خود تمام علوم پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ علم قرآن، علم حدیث، علم کلام، فلسفہ یونان، سائنس اور علم فقہ پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ آپ کی اس یونیورسٹی سے ان تمام علوم کے شہ سوار پیدا ہوئے، جنہوں نے ان تمام علوم پر بہت زیادہ کام کیا۔ اب جب تک حضرت کے ان شاگردوں کا تذکرہ نہ ہو ان علوم کی تاریخ نامکمل رہتی ہے۔ علم قرآن اور حدیث میں ابان بن تغلب (ر) اور جابر جعفی (ر) جیسے نابغہ افراد پیدا ہوئے۔ علم فلسفہ میں ہشام (ر) اور مومن طاق(ر) جیسے لوگ نکلے اور سائنس جسے علم کیمیا کے بانی کے طور پر جانتی ہے، یعنی جابر بن حیان (ر) بھی امام کی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طالب علم تھے۔
فقہی مباحث کی تو بنیاد ہی آپ (ع) نے ڈالی۔ محمد بن مسلم (ر)، زرارہ بن اعین (ر) ماہرین فقہ میں سے تھے۔ آپ نے فقہ جعفری کی بنیاد ڈالی۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ اسی لیے امام جعفر صادق علیہ السلام کو تمام فقہوں کا استاد مانا جاتا ہے، کیونکہ امام مالک (ر) اور امام ابو حنیفہ (ر) آپ کے شاگرد ہیں اور امام احمد بن جنبل (ر) اور امام شافعی (ر) ان کے شاگرد ہیں۔ اس طرح آپ ان کے بھی استاد ہوئے۔
آپ کے علم کا شہرہ مشرق و مغرب میں ہے۔ امام ابو حنیفہ (ر) کا بیان ہے کہ ایک دفعہ مجھے خلیفہ منصور نے کہا لوگ بہت زیادہ امام جعفر صادق (ع) کی طرف رجوع کر رہے ہیں، آپ ان کے لیے مشکل سوال تیار کریں۔ میں اُن کو دربار میں بلاتا ہوں، آپ ان سے یہ سوال پوچھیں۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں میں نے چالیس مشکل ترین سوال تیار کیے اور بھرے دربار میں آپ سے سوال کیے۔ آپ ہر سوال کے جواب میں کہتے تم اہل رائے اس کے بارے میں یہ کہتے ہو۔ اہل مدینہ اس مسئلے کا یہ جواب دیتے ہیں اور ہم اہل بیت رسول (ص) اس بارے میں یہ کہتے ہیں۔ کبھی ان کی رائے ہمارے اور کبھی اہل مدینہ کے ساتھ ہوتی اور کبھی ہم دونوں کے مخالف ہوتی۔ پھر امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ ہم نے نہیں کہا لوگوں میں سب سے بڑا عالم وہ ہے جو لوگوں میں موجود اختلاف سب سے زیادہ جانتا ہو(تذکرۃ الحفاظ ج ۱ ،ص۱۵۷)
آپ (ع) کی علمی عظمت اور شان و شوکت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے مسجد نبوی میں جعفر بن محمد (ع) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’مجھ سے پوچھ لو، پوچھ لو، قبل اس کے کہ مجھ کو کھو دو۔ کیونکہ میرے بعد تمہیں میری طرح حدیث رسول (ص) بیان کرنے والا نہیں ملے گا۔‘‘ مرکز علم مدینہ منورہ میں بیٹھ کر سلونی سلونی کا دعویٰ کرنا آسان بات نہیں ہے۔ یہ دعویٰ یا تو آپ کے دادا علی مرتضیٰ علیہ اسلام نے کیا تھا یا آپ نے کیا۔ (ذھبی، اعلام سیرۃ النبلاء،ج۶ ص۲۵۶و تاریخ اسلام)
امام (ع) جامع شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی زندگی کے جس گوشے سے متعلق بات کی جائے بےنظیر و بے مثال ہے۔ کہیں آپ کی علم کے چرچے ہیں تو کہیں آپ کی سخاوت کا ذکر عام ہے۔ آپ کی صدق اللسانی کی بنیاد پر آپ کو صادق کہا گیا۔ آپ کا عفو و درگزر قابل ستائش ہے تو آپ کا گرمی کی حالت میں کسب معاش کے لیے مصروف نظر آنا قابل دید۔ آپ میدان تقویٰ و زہد کے شہسوار ہیں تو میدان مناظرہ و دلیل کے شہنشاہ۔ غرض زندگی کے جس پہلو پر بات کی جائے وہ اس قابل ہے کہ اس پر لکھا جائے۔ میں فقط ان اقوال کا ذکر کرنا چاہوں گا جو فقہاء و محدثین نے آپ کی ذات گرامی کے بارے میں ارشاد
فرمائے ہیں، کیونکہ اہل علم ہی صاحبان علم کا صحیح تعارف کرا سکتے ہیں کہ یہ شخصیت کتنی قدر و منزلت کی مالک ہے اور اس کا علمی مقام کیا ہے۔
امام ابو حنیفہ: خدا کی قسم میں نے جعفر صادق سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔
امام مالک: میں نے ان (امام جعفر صادق(ع)) کو ہمیشہ تین حالتوں میں پایا، نماز میں مشغول، روزے کی حالت میں یا قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے۔
حلیۃ الاولیاء میں ہے کہ علمی اعتبار سے آپ سے بہتر انسان نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا نہ کسی انسان کے تصور میں آیا، عبادت و زہدو تقویٰ میں بھی آپ کا یہی عالم ہے۔
عمرو بن ابی مقدام کہتے ہیں’’اگر تم جعفر صادق (ع) کو دیکھو تو جان لو گے کہ وہ انبیاء کی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ (النوی،تہذیب الاسماء و الغات ج ۱ ص ۱۵۰)
ابو البحر جاحظ: جعفر بن محمد (ع) نے اپنے علم و فقہ سے دنیا کو پر کر دیا ہے۔
ابن حجر مکی: جعفر بن محمد (ع) سے اتنے علوم نقل ہوئے ہیں کہ جن کا چرچہ شہر بہ شہر، دیار بہ دیار ہے۔ آئمہ کبار، یحیٰ بن سعید، ابن جریح، امام مالک، امام ابو حنیفہ، شعبہ اور ابو ایوب جیسے افراد نے آپ سے روایت کی ہے۔ (ابن حجر مکی،الصواعق المحرقہ،ص ۱۲۰)
علامہ شہرستانی: امام جعفر صادق علیہ السلام نے امامت کے لیے کسی سے تعرض نہیں کیا اور نہ خلافت حاصل کرنے کے لیے کسی سے جھگڑے۔ جو شخص خود علم و معرفت کے سمندر میں غوطہ زن ہو، اسے ساحل کی تمنا نہیں ہوتی اور جو حقیقت کی چوٹی پر فائز ہو، اس کو پستیاں ڈرا نہیں سکتیں۔ (شہرستانی، الملل والنحل،ج ۱ ص ۲۷۲)
علماء اسلام نے امام علیہ السلام کی شخصیت کے جس پہلو کا سب سے زیادہ ذکر کیا وہ علم ہے۔ علم ہی خاندان اہلبیت (ع) کی میراث ہے۔ یہ گھرانہ اسی صفت حسنہ کی وجہ سے پہچانا و مانا جاتا ہے۔ قرآن بھی عالم کو جاہل پر اور جاننے والے کو نہ جاننے والے پر فضیلت دیتا ہے۔ آپ نے صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ اس علم کو پورے عالم میں پھیلایا۔ آپ کو سن 148 ہجری 25 شوال کو زہر دغا سے شہید کیا گیا۔ ظالموں نے چشمہ علم جس سے ہر خاص و عام سیراب ہو رہا تھا، اسے بند کر دیا۔ وہ شخصیت کہ جن کے علوم سے انسانیت فائدہ اٹھا رہی تھی، انہیں شہید کر دیا۔ آپ تو اپنے دادا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوگئے مگر آپ کا علم رہتی دنیا تک عالم اسلام کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ خدا ہمیں آپ کے علم سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے۔