بندر کی اچھل کود، کہیں جنگ تو شروع نہیں ہونے والی؟
عرب دنیا کے معروف قلم کار اور سیاسی تجزیہ کار عبدالباری العطوان یوں تو سیاسی تجزیئے اور تحلیل کی بنا پرشہرت رکھتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے چرند و پرند کی خصوصیات پر بھی مضامین لکھنے شروع کر دیئے ہیں۔ اپنے ایک تازہ مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ عرب کسانوں اور باغبانوں میں ایک پرندے کو بڑا خوش قدم مانا جاتا ہے اور جب وہ ہری بھری فصلوں اور زیتوں سے لدے درختوں کے آس پاس اس پرندے کو پرواز کرتا دیکھتے ہیں تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب فصلوں کی کٹائی زیتون کے باغات سے میوہ چینی کا وقت آگیا ہے۔
عبدالباری العطوان اس کے بعد ایک اور حیوان کا ذکر کرتے ہیں کہ جس کا مشاہدہ کرنے کے بعد لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں اور ان پر گھبراہٹ اور انجانا خوف طاری ہوجاتا ہے۔ عبدالباری العطوان کی تحقیق اور ریسرچ کے مطابق عام طور پر یہ جانور دکھائی نہیں دیتا لیکن مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جب لوگ اس جانور کو اپںے آس پاس منڈلاتے دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ عنقریب جنگ ہونے والی ہے۔ لوگ اس جانور کو بندر بن سلطان اور اختصار کے ساتھ بندر کہتے ہیں۔ عرب دنیا پر مسلط کی جانے والی جنگوں کے موقعوں پر اس جانور کی آمد و رفت شروع ہو جاتی ہے اور جنگ کے بادل لوگوں کے سر پر منڈلانے لگتے ہیں۔
عبدالباری العطوان جو سر زمین فلسطین سے تعلق رکھتے ہیں شام کے خلاف امریکہ اور صہیونی حکومت کی مسلط کردہ جنگ کے تناظر میں اپنے اس طنز آمیز مضمون کے ذریعے دراصل سعودی عرب کے چہرے کو عیاں کرنا چاہتے جو اس نے خانہ کعبہ کے پردے کے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ دنیا بھر کے سادہ لوح مسلمان آل سعود کو سرزمیں وحی اور حرمین شریف کا محافظ اور خادم تصور کرتے ہیں اور آل سعود نے بھی لوگوں پر کچھ اسی طرح ظاہر کر رکھا ہے۔ مساجد و مدارس کی تعمیراور اپنی مورثی حکومت کی بقا اور استحکام کے لئے درباری مولویوں اور مفتیوں کی تکثیر کا کام عام مسلمانوں کو آل سعود کے حقیقی چہرے سے آشنا نہیں ہونے دیتا اور وہ خوبصورت اور ذی قیمت عربی لباس میں ملبوس آل سعود اور ان کے درباری مولویوں اور مفتیوں کو دیکھ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حقیقی اسلام یہی ہے تاہم جب یہی سعودی حکام اور ان کے گماشتے نجی دوروں پر یورپ اور امریکہ کا سفر اختیار کرتے ہیں تو ان کو پہچاننا دشوار ہوجاتا ہے۔ لیکن دنیا کے حالات جس نہج پر جا رہے اس کے پیش نظر آل سعود اور عرب دنیا کے دیگر خیانت کاروں اور غداروں کے چہروں سے نقاب اترنی شروع ہوگئ ہے۔
مصر کے حالیہ واقعات میں سعودی عرب کے کردار نے اس کے دوستوں کو بھی حیران کردیا ہے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی میں اس حد تک بے شرمی پر اتر آئے گا کہ اپنی ہمسلک اور ہم نظریہ جماعت یعنی اخوان المسلمین کو اقتدار سے باہر کرنے پر مصر کے فوجی حکمران کو مبارکباد اور اربوں ڈالر کی مراعات دے گا۔ بہرحال بندر بن سلطان کو آج کل میڈیا پر کافی زیادہ دیکھا جارہا۔ فلسطینی کسانوں کے بقول خدا خیر کرے کہیں جنگ تو شروع نہیں ہونے والی؟