مضامین

اے پی سی کا دھوکہ: سعودی حمایت یافتہ وزیراعظم نواز شریف نے پاکستانی قوم کو طالبان و لشکر جھنگوی کے ہاتھ گروی رکھ دیا –

nsنام نہاد آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں سعودی حمایت یافتہ وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان سے زیادہ سعودی عرب اور تکفیری دیوبندی اور وہابی دہشت گردوں کے وفادار ہیں – طالبان ، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے جو دہشت گرد اعلانیہ پاکستان کے عام شہریوں، پولیس والوں اور فوجی جوانوں کو ذبح کرتے ہیں ہماری مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں اور اسکولوں کو بم دھماکوں میں تباہ کرتے ہیں، معصوم بچوں اور بچیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات؟ کیا پاکستانی قوم ان قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے جو ہمارے فوجی جوانوں کو اغوا کر کے ذبح کرتے ہیں ، ہماری مساجد میں نماز پڑھنے والے سنی اور شیعہ مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں ہمارے احمدی، مسیحی، ہندو بھائیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں – نواز شریف کو جواب دینا چاہیے کہ کس نے انہیں اس بات کا حق دیا کہ ہزاروں سنی، شیعہ، احمدی، مسیحی پاکستانیوں کو شہید کرنے والے درندہ صفت تکفیری دیوبندی درندوں سے مذاکرات کریں؟ طالبان اور سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں سے مذاکرات صرف اس صورت میں ممکن ہیں جب یہ اپنے ہتھیار پھینک دیں، پاکستانی ریاست اور آئین کی برتری کو تسلیم کریں، تمام مجرموں اور دہشت گردوں کو پاکستانی حکومت کے حوالے کریں اور آئندہ کے لئے تشدد سے گریز کرنے کا وعدہ کریں — ان شرائط کی عدم موجودگی میں مذاکرات کی پیشکش نہ صرف بے معنی بلکہ اس سے دہشت گردوں کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی بی بی سی اردو کے مطابق اسلام آباد میں منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جتنا مفصل ہے اتنا ہی ہلکا بھی ہے۔ اس میں اچھی میٹھی گاجریں تو بہت ہیں لیکن مذاکرات میں سنجیدگی نہ دکھانے پر کسی ڈنڈے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس بیان سے تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت معاملات میں حاوی ہے اور وہ ایک مضبوط پوزیشن سے بات کر رہی ہے۔ اگر اور مگر کا اس اعلامیے میں جان بوجھ کر کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اگر طالبان سے بات چیت کامیاب نہ ہوئی تو دوسری آپشن کیا ہوگی؟ طاقت کے استعمال کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ آٹھ نکاتی فارمولے میں پاکستانی طالبان کا نام نہیں لیا گیا ہے، نہ ہی شدت پسند جیسی اصتلاح یا دہشت گرد جیسے سخت لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ماضی کے اس قسم کے اجلاسوں سے اس میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ ہاں ماضی کا رونا ضرور ہے کہ اس قسم کی کُل جماعتی کانفرنسوں اور پارلیمانی قراردادوں پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ تاہم اس میں کسی کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹہھرایا گیا ہے یا اس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ اعلامیہ کی ایک اہم بات جو ابتداء میں ہی ہے، وہ فوجی حکام کی بریفنگ کے تناظر میں اس بات کا اعتراف ہے کہ حالات گزشتہ کئی برسوں میں خراب ہوئے ہیں، ان میں بہتری نہیں آئی ایک بڑی بات اس میں کسی مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف ثالثوں کا انتخاب کر کے کب تک مذاکراتی عمل کو شروع کرنے کے پابند ہیں۔ یہ کل بھی ہوسکتا ہے اور آئندہ سال بھی۔ شاید جان بوجھ کر کوئی مدت نہیں رکھی گئی تاکہ مسلم لیگ (نون) کی حکومت تسلی سے بات چیت کی تیاری اور آغاز کرے۔ یا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی معاہدے تک پہنچنے تک حکومت اس کا کوئی اعلان نہ کرے۔ اخبارات میں آنے سے شہہ سرخیاں تو بن جائیں لیکن بات چیت آگے نہ بڑھ پائے۔ شاید اسی لیے حکومت کی رضا پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ –

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button