مضامین

برائی کی جڑ، امریکہ یا سعودی عرب؟

obama abdulaمصر اور شام میں امریکی جارحیت کے پس پردہ حقائق” کے زیر عنوان منعقدہ اس سیمنار سے پاکستان کے سینئر صحافی اور معروف ٹی وی اینکر مبشر لقمان نے کہا ہے کہ کوئٹہ کے سانحے کے شہداء کی ماؤں، بہنوں اور شیعہ قوم کے پرامن احتجاج نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اصل ماجرا کیا ہے، میں نے ہمیشہ کہا کہ اسلام کے اصل دشمن اندر ہیں، اسلام کے اصل دشمن یہ نام نہاد مسلمان ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ ہم امریکہ کو برا کہتے ہیں مگر اصل برائی کی جڑ سعودی عرب ہے۔ سعودی عرب خود مسلمانوں کے حقوق کا غاصب ہے۔ مسلمانوں کی معاشی، سیاسی اور اقتصادی بدحالی کا ذمہ دار سعودی عرب ہے۔ عرب لیگ مسلمانوں کی نہیں عربیوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ پوری دنیا مسلمان ممالک کے تیل پر پلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں جو حالات ہیں، اس پر میں نے پروگرام بھی کیا ہے کہ یہ ثابت ہے کہ کیمیکل ہتھیار کس نے چلائے اور کس سعودی شہزادے نے خریدے اور کس نے فراہم کئے، مگر ابھی بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔
اس سیمنار میں اور بھی دیگر موضوعات پرگفتگو ہوئی جن کو بیان کرنے سے اب تک گریز کیا جاتا رہا ہے۔ بلا شبہ مسلمانوں کی معاشی بدحالی، سیاسی پسماندگی، تعصب اور جہالت جیسی تمام برائیوں کی ذمہ داری عالم اسلام کے بڑے، بااثر اور دولت مند ملکوں پر عائد ہوتی ہے۔ اور بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سعودی عرب سمیت علاقے کے سبھی دولت مند عرب ممالک تیل اور گیس کے عظیم ذخائر پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور عالم اسلام کی اس خدا داد دولت و ثروت کا سارا فائدہ ان طاقتوں کو پہنچا رہے ہیں جن کی تاریخ اسلام دشمنی اور انسان کشی سے مرقوم ہے۔ مسلم امہ کا درد رکھنے والے اگرچہ ان حالات سے واقف تھے لیکن سیاسی ملاحظات کی بنا پر پرداری کرنے پر مجبور تھے اور چاہتے ہوئے بھی اپنادر بیان کرنے سے قاصر تھے۔
1979 میں امریکہ کی پٹھو ظالم شاہی حکومت کے خاتمے اور ایران میں اسلامی نظام قائم ہونے کے بعد بیداری کی جو لہر اٹھی تھی اس کو روکنے کے لئے امریکہ اور اس کے قریبی ترین اتحادی کی حثیت سے سعودی عرب کا کردار کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اس زمانے میں اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب قرار دے کر سعودی عرب نے اپنی مخالفت کا جواز ڈھونڈ نکالا تھا لیکن مصر کے حالیہ انقلاب کی مخالفت اس نے کس بنیاد پر کی یہ بات سمجھنے سے مسلم امہ قاصر ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی مخالفت میں میں بھی امریکہ اور سعودی عرب ایک دوسرے کے شا بشانہ کھڑے تھے اور اب مصری عوام کے انقلاب کی مخالفت میں بھی ریاض اور واشنگٹن ایک دوسرے کے معاون مددگار بنے ہوئے ہیں۔ کہیں وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں تو کہیں القاعدہ سے وابستہ دہشت گردوں سے کام لے رہے ہیں۔
ان کی یہ بے شرمی، ڈھٹائی اور منافقت دیکھ کر اب انصاف پسندوں اور ملت کا درد رکھنے والوں کے لئے خاموشی اور سیاسی ملاحظات کی پاسداری محال نظر آتی ہے لہذا رجعت پسند عرب ممالک اور خصوصا آل سعود پر تنقید کرنے والوں کا حلقہ روز بروز وسیع ہوتا جارہا ہے۔ خاص طور مصر اور شام کے مسئلے میں سعودی عرب کے متضاد روئیے نے سب کی آنکھیں کھولدی ہیں۔سعودی عرب کےاس متضاد روئیے اور امریکہ نوازی کی بھینٹ چڑھنے والی بدنصیب قوم کی حثیت سے افغان عوام کے بعد جو دوسرا نام ذہن میں آتا ہے وہ پاکستان کی مظلوم قوم کاہے جو گذشتہ تین عشروں قربانی دیتی چلی آرہی ہے۔
بادی النظر میں یوں دکھائی دیتا کہ مظلوم وہ ہیں جو مارے جا رہے اور وہ ظالم ہے جو ہتیار اٹھاکر یا اپنے جسم سے بم باندھ کر دوسرے کلمہ گو مسلمانوں کو مار ڈالتا ہے، لیکن اگر تھوڑا سا غور کریں اور دیکھیں کہ یہ لوگ معاشرے کے کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی ذہنی اپروج کیا ہے تو شاید لوگ ان کی بےچارگی پرترس کھاکر بدعائیں دینے کی بجائے ان کی نجات کی دعا کریں۔ اس لئے کہ ہتیار بند ہوکر نکلنے والے یہ لوگ نہ تو پیشہ ور قاتل تھے نہ چور ڈاکو، یہ تو مدارس اور مساجد کی رونق تھے، منبر و محراب اور موعظہ و نصحیت ان ہی لوگوں سے مختص تھا۔ یہ تو دشمن کے ساتھ بھی مدارا اور حسن سلوک کا درس دیا کرتے تھے، پھر کیا ہوا کہ انہوں نے اپنی ہی تعلیمات کے منافی کام شر وع کردئیے۔؟
خودکشی یا خودکش حملوں کے تعلق سے پولیس حکام اور ماہرین نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ یہ کام اس وقت منصہ ظہور میں آتا ہے جب انسان اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس کرے یا دشمن کو ختم کرنے کے لئے کوئی اور راستہ باقی نہ بچا ہو یعنی ایک آسان ہدف کے لئے جان کی بازی لگانا غیر معقول نظر آتا ہے۔ لہذا کسی آسان اور غیر ضروری ہدف کی خاطر جان کی بازی لگانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی کاروائیوں میں ملوث افراد ذہنی طور پر مفلوج ہیں اور ان کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر حملوں میں کمسن و سال بچوں اور جوانوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی خود کش بمبار کے لئے ایسے حالات مہیا کردئیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے سامنے اور کوئی راستہ نہیں پاتا اور ایک روبوٹ کی طرح خود کو دھماکے سے اڑا لیتا ہے۔
خودکش حملہ آوروں کے ذہنوں کو بالکل اسی طرح کنٹرول کیا جاتا ہے جسطرح ایک سافٹ ویر کے ذریعے روبوٹ کو چلایا جاتا ہے اس چلتے پھرتے روبوٹ کا ماسٹر مائنڈ خود بھی دراصل ایک روبوٹ کی طرح عمل کرتا ہے اور اس کو یہ پتہ ہی نہ
یں ہوتا کہ اس خونی گیم کا اصل خالق کون ہے۔ کس نے اسے بم بنانے، چلانے اور خودکش بمبار تیارکرنے کی تربیت اور ٹریننگ دی ہے وہ ایک روبوٹ کی مانند یہ سوچنے اور سجھمنے صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ وہ کس کے لئے کام کر رہا ہے۔ بس وہ ایک بات جانتا ہے کہ وہ جہاد کر رہا ہے کہ جس کا انجام جنت اور خدا کا دیدار ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان روبوٹ ایک شخص کو ذبح کرنے بعد اس کا سینہ چاک کرتا ہے اور اس کا دل نکال کر منہ لے کر اپنے دانتوں سے چباتا ہے اور اس جیسے کئی اور انسان نما روبوٹ اس انتہائی دردناک منظر کی وڈیو بناکر میڈیا پر جاری کر دیتے ہیں۔ پوری دنیا اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے انسانی ضمیر ہل کر رہ جاتا ہے لیکن انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ چپ سادھ لیتا ہے اور مغربی میڈیا اسلام کو دہشت گرد اور مسلمانوں کو آدم خور قرار دینے کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ یہ ہے وہ مقدس جہاد جس کا تصور سعودی عرب کے مفتیوں نے پیش کیا ہے اور جس عمل درآمد کے لئے سادح لوح اور بے بضاعت مسلمانوں کو استعمال کی جا رہا ہے۔ ایک سعودی مفتی نے حال ہی میں جہاد النکاح کا فتوی صادرکرکے سادہ لوح مسلمان خواتین کے لئے بھی ایک ایسا راستہ کھولدیا ہے جو بظاہرانہیں سیدھا جنت میں لے جاتا ہے۔
نہیں معلوم اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا جھوٹ کہ پاکستان کی ایک کالعدم دہشت گرد سے واستہ ایک سر کردہ مولوی نےاپنی اہلیہ کو جہاد النکاح کے لئے شام روانہ کیا جہاں مبینہ رپورٹ کے مطابق 13 جہادی کمانڈروں نے ان کے ساتھ جنسی فعل انجام دیا۔ اس سے قبل الجزیرہ ٹی چینل کی ایک معروف اینکر پرسن کے ساتھ جہاد النکاح سے متعلق رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں جس کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے جبکہ جہادی کمانڈروں نے ایک خط کے ذریعے اس کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ الجزیرہ کی رپورٹر نے برضا و رغبت خود کو جہاد النکاح کے لئے پیش کیا تھا۔
سعودی مفتیوں کے اس طرح کے بے بیناد اور خلاف شرع فتوے ایک طرف اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمان گھرانوں کے تباہی اور بربادی کا سامان مہیا کر رہے ہیں چنانچہ پاکستان کے سینئر صحافی اور معروف ٹی وی اینکر مبشر لقمان کے بقول ہم امریکہ کو برا کہتے ہیں مگر اصل برائی کی جڑ سعودی عرب ہے۔ آل سعود نے جو اب کھل کر امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں، اپنے اقدامات سے واضح کردیا ہے کہ سعودی عرب، جمہوریت اور اسلامیت دونوں کا مخالف ہے اور اسلام کو محض اپنے دربار کے تحفظ کے لئے استعمال کررہا ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی ممالک کے عوام اور مسلم امہ کو اس کے اثر سے نکا لا جائے اور اس کے سب سے بھاری ذمہ دار علما، دانشوروں اور انصاف میڈیا کی بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آشنا کریں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ خطے میں دہشتگردی ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے ہماری معیشت بری طرح متاثر ہوئی، پاکستان کو دہشت گردی سے بہت نقصان ہوا ہے اور بقول ان کے 40 ہزار پاکستانی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔
نواز شریف کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سماجی تبدیلی کے نئے فریم ورک کی ضرورت ہے۔بہرحال پاکستانی سیاستدانوں اور حکمران طبقے کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی ملاحظات کی بجای اپنے قومی اور ملکی مفادات کو پیش نظر رکھیں اور قلیل المیعاد موثر اقدامات کے ساتھ ساتھ طویل المعیاد منصوبہ بندی کریں خصوصا مسجد و محراب و منبر سے وابستہ افراد کی صحیح تربیت اور نظارت کا مناسب انتظام کریں تاکہ کوئی دوسرا ان کو اپنے ناجائز مفادات کے لئے استعمال نہ کرسکے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button