اسلام، جہاد النکاح اور اس سے متاثرہ تیونسی لڑکیاں
شام کے حالات پچھلے اڑھائی سال سے خراب ہیں، خانہ جنگی استعمار کی سازشوں سے اپنے عروج پر ہے، ہر آنے والا دن کئی ماوں کی گودیں اجاڑ رہا ہے، کئی عورتوں کو بیوہ کر رہا ہے، بہنوں سے ان کے بھائی اور بچوں سے ان کے باپ چھین رہا ہے، امریکی اور اسرائیلی اسلحہ سے جہاد انجام دیا جا رہا ہے۔ عجب ثم العجب ہر مسلمان ورطہ حیرت بنا ہوا ہے کہ امریکہ و اسرائیل اسلام اور مسلمانوں کے اتنے خیر خواہ ہوگئے ہیں، حیرت اس بات پر ہے کہ سادہ لوح مسلمان اس فساد کو جہاد کا نام دے رہے ہیں۔
گذشتہ شب بی بی سی کی رپورٹ نظر سے گذری جس میں تیونس کی جہاد النکاح کے لیے شام جانے والی لڑکیوں کی بات کی گئی تھی۔ تیونس کے وزیر داخلہ کا بیان دیا گیا تھا کہ شام میں جہاد نکاح کے لیے جانے والی سو کے قریب لڑکیاں حاملہ ہو کر واپس تیونس پہنچ گئیں ہیں اور ان میں سے ہر لڑکی کے ساتھ بیس سے لیکر سو مجاہدین نے وہ فعل انجام دیا جو اسلام نے فقط میاں اور بیوی کے لیے جائز قرار دیا ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی یہ فعل انجام دے گا تو اس کے لیے رجم اور کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے۔ سچ پو چھیے تو میں نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے، دل خون کے آنسوں رو رہا ہے، صحیح طرح سے سو بھی نہیں سکا ہوں۔ اسلام کے نام پر جو عورت کی عفت و پاکدامنی کا امین ہے، اسلام جو حیاء کا دین ہے، اسلام جو غیرت کا دین ہے، اسلام جو نسل انسانی کے تحفظ کا امین ہے، جو بغیر نکاح کے نامحرم سے ہاتھ تک ملانے کو مکروہ سمجھتا ہے، اس سعادت ابدی کے دین کا نام استعمال کرتے ہوئے اس بے حیائی کا مظاہرہ گیا۔
نام نہاد ان پڑھ اور جاہل مفتیوں نے اسلام کے بنیادی تصور نکاح کی روح کو داغدار کر دیا ہے۔ اسلام تو ایک عورت کی ایک مرد سے شادی کی بات کرتا ہے، والد کی اجازت کو ضروری قرار دیتا ہے، دوسری شادی کے لیے پہلے شوہر سے طلاق اور عدت کو ہر صورت میں لازم قرار دیتا ہے، مگر یہاں سارے ضابطے توڑ دیئے گئے۔ اسلام کے نام پر غیر اسلامی کام انجام دیا گیا۔ اسلام کے تحفظ کا نعرہ لگا کر اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کیا گیا۔ ایک عورت نے سو سو مردوں کے ساتھ وقت گزارا، غضب خدا کا اسلام تو ایک شوہر سے طلاق کے بعد عدت کو لازمی قرار دیتا ہے، یہاں تو اس واضح قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔
میں کہتا ہوں اگر یہ کام حضرت عمر (ر) کے دور میں ہوتا تو آپ جن شادی شدہ لوگوں نے یہ فعل انجام دیا ان کو رجم کرتے اور دوسروں کو کوڑے لگاتے، مگر یہاں تو حوس پرستی کا نام ہی اسلام رکھ دیا گیا۔ اپنی جنسی تسکین کے لیے واضح شرعی حدود کو پامال کیا گیا۔ اب یہ سینکڑوں سادہ لوح مسلمان لڑکیاں ایسے بچوں کو جنم دیں گی، جن کے باپ کو کوئی علم نہ ہوگا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ یہ تمام غریب مسلمان لڑکیاں ہیں، اس میں اس نکاح کے جائز ہونے کا فتویٰ دینے والے کسی مفتی کی کوئی عزیزہ شامل نہیں۔ اب یہ بچیاں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں اور پیدا ہونے والے بچے جب اپنے باپ کا نام پوچھیں گے تو پتہ نہیں ان کو کیا بتایا جائے گا۔ خدا کے لیے اسلام پر رحم کرو۔
میں ان مفتیوں سے گزارش کروں گا خدا کے لیے اپنی نام نہاد سیاست کے لیے دین کو بدنام کرنا چھوڑ دو۔ شام کی جنگ عالمی قوتوں نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے شروع کی ہے، آپ اس طرح کا کوئی کام نہ کریں جس سے اسلام دشمن قوتیں مضبوط ہوں اور آزادی قدس کے لیے کام کرنے والی قوتوں کو کمزوری کا سامناکرنا پڑے۔ اس فتوے نے جہاں ہزاروں مسلمان لڑکیوں کی عفت کو پارہ پارہ کیا ہے، وہیں اسلام دشمن قوتوں کو بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ایک بہانہ دیا ہے کہ یہ اسلام ہے جس میں ایک وقت میں ایک عورت کے ساتھ سینکڑوں لوگ شادی کر رہے ہیں۔
مجھے حیرانگی اس بات پر بھی ہے کہ شیعہ مسلمانوں پر متعہ کی وجہ سے طعن و تشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں، حالانکہ متعہ میں والد کی اجازت سے باقاعدہ نکاح ہوتا ہے، اس میں عدت گذاری جاتی ہے، ایک وقت میں صرف ایک مرد سے ہوتا ہے، فرق فقط یہ ہے کہ نکاح دائمی میں مدت معین نہیں ہوتی اور یہ ایک خاص مدت کے لیے ہوتا ہے، اور اس کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی اور اس کا منسوخ ہونا اختلافی ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کبھی بھی اس قسم کے جہاد النکاح کی اجازت فرمائی۔ کیا خلفاء راشدین نے اس کی اجازت فرمائی۔ جب ان سب لوگوں نے ایسا نہیں کیا تو خدا کے لیے مذہب اسلام پر رحم کرو۔ خدا ہمیں حق کی پہچان اور اس کی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین