یوم عاشور پر کراچی میں بجھنے والے چراغ اور سازشی عناصر
کراچی میں یوم عاشور کے جلوس پر ہونے والے خوفناک بم دھماکے میں دسیوں معصوم شہریوں اور عزاداران حسینی کی شہادت کو دکانوں میں لگي آگ کے دھویں کے پیچھے جس خوبصورتی سے چھپایا گیا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے اطلاعات کے مطابق بم دھماکے سے متعلق تحقیقات پر مامور اداروں اور انوسٹی گیشن ٹیموں کے درمیان تضاد نے اس المناک واقعے سے متعلق تحقیقات کو سردخانے میں ڈالے جانے کے سارے اسباب فراہم کردیئے ہیں
لیکن آتشزدگی کے مبینہ ملزمان کو عدلیہ کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ہے اور اس سلسلے میں پولیس انتظامیہ اور متعلقہ سیکورٹی اہلکاروں نے جس چابک دستی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے پیش نظر تو یہی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ کاش ماؤں نے دکانوں کو جنم دیا ہوتا ۔ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ کار جاوید اقبال چوہدری کے ایک مقالے کا عنوان یہی دعائیہ جملے قرار پایا تھا جو انہوں نے شہداء سانحہ عاشور کے تناظر میں رقم کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں بے پناہ مالی نقصان ہوا اور میڈیا کے بقول کئی گھروں کے چولھے بجھ گئے لیکن تعجب ہوتا ہے اس بات پر میڈیا کو گھروں میں بجھے چولھے تو نظر آگئے لیکن ان بجھے چراغوں پر اس کی نظر نہیں گئی کہ جنہیں بم کا دھماکہ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بجھا دیا گيا۔چولھے تو پھر جل اٹھے لیکن جن چراغوں کو بجھادیا گیا وہ کبھی روشن نہیں ہونگے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جن گھرانوں کے چراغ یوم عاشور پر گل کردیئے گئے ان کے گھروں میں گھپ اندھیرا تو ہے ہی چولھے بھی نہیں جل رہے ۔ اوپر سے المیہ یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے آتشزدگی میں ملوث افراد کی گرفتاری چالان اور عدالتوں میں ان کی پیشیوں سے متعلق خبریں نشر کرکے غمزدہ خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے ۔چنانچہ ملت جعفریہ میں اس حوالے سے پائی جانے والی بے چینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ماحول کو ابتری سے بچانے اور غمزدہ دلوں کو اشتعال سے محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ شہدا کے لواحقین کی دلجوئی کی جائے اور ان کی مالی معاونت کے جو وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا کیا جائے زخمیوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کی بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کی جائیں اور بم دھماکے کے اصل مجرموں کا چہرہ بے نقاب کیا جائے اور آتشزدگي میں ملوث حقیقی مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور اس واقعے کی تحقیقات اعلی سطح پر کرائي جائیں یہی وہ مطالبات ہیں کہ جن کو لے کر ملت جعفریہ کے بعض ادارے اور تنظیمیں اس وقت میدان میں موجود ہیں اور حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ان کے مطالبات کو سنجیدہ لیں اور شیعہ قائدین اور رہنماؤں کو اعتماد میں لیکر کراچی میں امن و امان کو یقینی بنائیں ادھر اطلاعات کے مطابق حکومت شہدائے عاشور کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، اگر سانحہ عاشور میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو گرفتار نہ کیا گیا تو احتجاجی تحریک چلائیں گے‘ بے گناہ شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کرنے والی حکومت 27 دسمبر کے سانحہ میں ملوث‘ لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے دہشت گردوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتی؟ ان خیالات کا اظہار جعفریہ الائنس پاکستان کے سربراہ علامہ عباس کمیلی‘ علامہ آفتاب حیدر جعفری اور مولانا محمد حسین مسعودی نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ عباس کمیلی نے کہا کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی طفل تسلیوں کے باوجود ملت جعفریہ کے بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاریوں کا عمل زور و شور سے جاری ہے‘ متعصب حکومت نے اب تک 100 سے زائد بے گناہ شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کرکے بے بنیاد مقدموں میں ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پولیس انتظامیہ ہر عزادار کو جو جلوس عزا میں شریک ہوا گرفتار کرنے کے درپے ہے‘ ہم اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔