
جعفریہ الائنس اور سنی تحریک کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ حکومت دہشتگردوں کو دہشتگرد اور محب وطنوں کو محب وطن کہے تو ہی اس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہے، سانحہ نشتر پارک، سانحہ یوم عاشور اور سانحہ داتا دربار ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں، اور اس کے پست پر کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں اس لیئے حکومت کالعدم تنظیموں کے نام کی بجائے ان کے کاموں اور اس میں موجود لوگوں
پر بھی پابندی عائد کرے،ملک میں جاری دہشتگردی میں حکومتی ادارے اور مختلف لبرل ہونے کی دعویدار سیاسی ھماعتیں ملوث ہیں اور وہ ان دہشتگردوں کی حمایت کررہی ہیں، خصوصی عدالتوںاور ان میں موجود ججز صاحبان کو بغیر دباؤ کے کام کرنے کی اجازت سے ہی دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ 7 جولائی کو جعفریہ الائنس کے تحت کراچی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں تمام مذاہب کے علماء پر مشتمل مزارات و مساج بچاؤ کمیٹی کا اعلان کیا جائے گا۔ منگل کے روز جعفریہ الائنس پاکستان کے سربراہ علامہ عباس کمیلی نے 7 رکنی وفد کے ہمراہ سنی تحریک کے مرکز پر ان کے رہنماؤں محمد شاہد غوری، قاری خلیل الرحمان قادری، مبین قادری اور سلیم قادری سے ملاقات کی۔ اس موقع پر جعفریہ الائنس کے سنئیر نائب صدر مولانا حسین مسعودی، علامہ جعفر زضا نقوی، شمس الحسن، شبر رضا، محسن رضا، دیگر بھی موجود تھے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشتگردوںکی جانب سے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی ہر سازش کو مل کر ناکام بنایا جائے گا۔ اس موقع پر علامہ عباس کمیلی نے کہا کہ مسلک اہلسنت اور شیعہ مسلک کے درمیان مذہبی حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور دونوں مسالک مزارات اور اولیاء کرام کو ماننے والوں میں سے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں مسالک کے علماء کرام اور مشائخ عظام کی قربانیوں کی بدولت ہی پاکستان وجود میں آیا اور انہی مسالک نے پاکستان بننے کی سب سے پہلے حمایت کو تھی، انھوں نے کہا کہ آج ملک میں ایک سازش کے تحت ایک مخصوص طبقہ کو حکومتی سرپرستی میں ملک سے مذہبی آزادی سلب کرنے کی چھوٹ دی جارہی ہے اور یہ طبقہ ملک سے باہر کے نظریات کو امپورٹ کرکے یہاں لاگو کرنا چاہتا ہے۔۔ عباس کمیلی نے کہا کہ اگر سانحہ نشتر پارک کے بعد حکومت اس سانحہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی اور اس سانحہ میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو سانحہ عاشور نہ ہوتا اور نہ ہی سانحہ داتا دربار ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں جاری دہشتگردی میں ملوث عناصر کی پست پناہی میں چند وفاقی اور صوبائی وزراء اور حکومتی ادارے ملوث ہیں اور وہ ان میں ملوث دہشتگردوں کی حمایت کررہے ہیں، اور ان دہشتگردوں نے سیاسی جماعتوں میں پناہ حاصل کر رکھی ہے۔انہوں نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج عدالتیں چھوٹے چھوٹے معاملات پر تو از خود نوٹس لیتی ہیں لیکن آج تک عدالتوں نے نہ تو سانحہ نشتر پارک پر از خود نوٹس لیا اور نہ ہی سانحہ یوم عاشور اور دیگر مساجد اور مزارات پر دہشت گردی کا کوئی نوٹس لیا ہے بلکہ افسوس کا امر یہ ہے کہ اگر کسی دہشت گرد کورنگے ہاتھوں گرفتار بھی کرلیا جاتا ہے تو انہیں عدالتیں ٹھوس شواہد نہ ہونے کا کہہ کر انہیں بری کر دیتی ہیں یا پھر ان دہشت گردوں کو عدالتوں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر سنی تحریک کے مرکزی رہنما محمد شاہد غوری نے کہا کہ اس وقت ملک میں ایک مخصوص طبقہ حکومتی سر پرستی میں اہلسنت جماعت کا نام استعمال کرکے دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور حکومتی خفیہ ادارے اور وزارت داخلہ اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ دہشت گرد کون ہیں اور کون کون سے مدارس اور علاقے ان کی پناہ گاہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی آنکھوں پر کالے چشمے پہن رکھے ہیں اور سیاسی مصلحت پسندی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے وزیر رانا ثناء اللہ کھلم کھلا کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کی سرپرستی کا دعویٰ کر رہے ہیں اور برملا ان کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور اگر اب بھی حکمرانوں نے ہوش کے ناخون نہ لیا تو سوات جیسے حالات ملک بھر اور کراچی میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج حکمران، انتظامیہ اور حساس اداروں کے سربراہان اپنی جانوں کو بچانے کے لیئے دہشت گردوں کو بچارہے ہیں جس سے وہ پوری قوم کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔