
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کے بعد کہ مقامی طالبان کے ساتھ مذاکرات اسی وقت ہوسکتے ہيں جب طالبان اس نتیجے پرپہنچ جائيں گے وہ پاکستانی فوج کا کبھی بھی مقابلہ نہيں کرسکیں گے طالبان نے بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنی شرط کا اعلان کردیا ہے ۔ پاکستان کے مقامی طالبان کے ترجمان اعظم طارق کا کہنا ہے کہ ان کا گروہ اسی وقت حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے گا جب حکومت پاکستان
قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلالے گی البتہ طالبان کے ترجمان نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ حکومت پاکستان، طالبان کی اس شرط کوقبول نہيں کرے گی ۔آصف علی زرداری نے مذاکرات کی یہ بات ایک ایسے وقت کی ہے جب برطانیہ کے اپنے دورے میں انھوں نے یہ بات صاف کہہ دی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ جنگ میں جیت کے علاوہ کسی اورآپشن پرسوچ بھی نہيں سکتے اسی لئے جیسا کہ طالبان کے ترجمان نے خود ہی کہا قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلانے کی طالبان کی شرط کوحکومت پاکستان کی طرف سے قبول کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فوج اورحکومت نے طالبان کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرلی ہے اورحکومت پاکستان اورفوج نے طالبان کےمقابلے ميں گھٹنے ٹیک دئے ہيں ۔ اس کے علاوہ گذشتہ ایک سال سے فوج قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پرتعینات ہے اورایک ایسے وقت جب وہ قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں اورشدت پسندوں کا صفایا بھی نہيں کرسکی ہے وہاں سے نکل آنا خود فوج اورحکومت دونوں کے لئے ایک شکست ہوگی۔ علاوازیں فوج یا حکومت قبائلی علاقوں کے عوام کو طالبان کےرحم وکرم پرنہيں چھوڑ سکتی کیونکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں منجملہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پہلے الزام لگارکھا ہے کہ حکومت پاکستان نے قبائلی علاقوں کے عوام کو طالبان کے رحم وکرم پرچھوڑدیا ہے ۔ اس سے بڑھ کریہ کہ اگرحکومت فوج کوقبائلی علاقوں سے واپس بلالیتی ہے تو اس صورت میں امریکہ اورنیٹو میں پاکستان کے تئيں ناراضگی پیدا ہوجائے گی جو پہلے ہی پاکستان پراس طرح کا الزام لگاتے رہے ہيں کہ حکومت پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ نہيں ہے
دوسری طرف طالبان سے حکومت کا یہ کہنا کہ وہ اسی وقت ان سے مذاکرات کرے گی جب وہ یہ تسلیم کرلیں گے کہ وہ فوج کا مقابلہ نہيں کرسکتے یہ بھی ایک پیچیدہ شرط ہے کیونکہ جب طالبان اپنی شکست تسلیم کرلیں گے تو اس صورت میں مذاکرات کی بظاہر کوئي ضرورت ہي نہيں رہ جاتی ۔ افغانستان میں تعینات نیٹوفورسس اورامریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے ہی دہشت گردوں کا سب سے محفوظ ٹھکانہ ہيں اسی لئے پاکستانی فوج کوچاہئے کہ وہ ان علاقوں پربھرپور کنٹرول کرے تاکہ طالبان اوردہشت گردوں کی سرگرمیوں پرپوری طرح نظررکھ سکے اوریوں سرحدوں کے دونوں جانب دہشت گردوں کی آمدورفت کوبھی روکا جاسکے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ حکومت پاکستان کے ممکنہ مذاکرات کی امریکہ اورنیٹو کی طرف سے بھرپورمخالفت کی جارہی ہے مگر افغانستان کے طالبان کے ساتھ حکومت افغانستان کے ممکنہ مذاکرات کی امریکہ اورنیٹو سب کی طرف سے حمایت کی جارہی ہے یہ وہ معمہ ہے جس کوعلاقے کے سیاسی تجزیہ نگار پوری طرح حل نہيں کرسکے کہ دوہرا معیار کیوں ؟ کیا دہشت گردی کی طرح امریکہ کے نزدیک طالبان بھی اچھے اور برے ہيں کیونکہ امریکہ نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے دہشت گردی کو دوقسموں اچھی اوربری دہشت گردی میں تقسیم کررکھا ہے