پاکستانی شیعہ خبریں
دہشت گردی اور ملت جعفریہ کی مسلسل نسل کشی
پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پریوں تو سبھی تشویش میں ہیں لیکن اس سلسلے میں ملت جعفریہ کی تشویش اور عدم تحفظ کا احساس اب سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے اور اب لوگ نسل کشی کی باتیں کرنے لگے ہیں ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل ناصر عباس جعفری کراچی پریس کلب میں مقامی صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور ملت جعفریہ کی مسلسل نسل کشی کے خلاف اور بالخصوص پاراچنار میں طالبان دہشت گردوں کی جانب سے کئے جانے والے محاصرے کو توڑنے کیلئےتین اکتوبرکو اسلام آباد میں قومی عزاداری کانفرنس منعقد ہوگی ۔دوسری جانب جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ ملت جعفریہ کو انصاف فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا تعلق ایک خاص مکتبہ فکر سے ہے جو ان کی بالواسطہ سرپرستی اور گزشتہ سانحات کے مجرموں کی گرفتاری سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پارہ چنار شدید محاصرے میں ہے جہاں حکومت واضح طور پر دہشت گردوں کا ساتھ دے رہی ہے اور پولیٹیکل ایجنٹ بھی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف جنرل کیانی سے فوری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت سے پارا چنار کے عوام مایوس ہوچکے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ افغانستان سے طالبات کی دراندازی روکی جائے، کوئٹہ القدس ریلی میں شہید ہونے والے افراد کے لئے حکومت معاوضے کا اعلان کرے، یوم عاشور، یوم چہلم اور 21 رمضان کے جلوسوں میں کی جانے والی دہشت گردی سے متعلق جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض قوتیں جان بوجھ کر ملت جعفریہ کو مسلسل نشانہ بنائے ہوئے ہیں جس کے پیش نظر یہ تصور زور پکڑ تا جارہا ہے کہ گویا یہ شعیوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔
پاکستان میں شعیہ مسلک کے لوگوں کے نسل کشی کا تصور 30 برس قبل اسوقت کے فوجی حکمراں جنرل ضیاالحق کی حکومتی مشنری کی نگرانی میں چلنے والے مدارس مذھبی مراکز اور مساجد کے ذریعے پاکستان کے طول و عرض میں پروان چڑھا اور بتدریج اس پر عمل درامد شروع کیا گیا اور آج طالبان اور ان کے مقامی ہمنواؤں کی شکل میں شیعیہ مسلک کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ میں مشغول ہے اور نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے حساس اداروں اور ایجنسیوں موجود ان کے ان کے ہمدرد انہیں ہر طرح سے سپورٹ کررہے ہیں۔ پاراچنار سے تعلق رکھنے والے شعیہ عمائدین اور رہنماؤں کا کہنا ہے
پارا چنار پچھلے چار برسوں سے طالبان اور ان کے حامی مقامی قبائل کے محاصرے میں ہے اور سرکاری فورسز بھی وہاں موجود ہیں لیکن اس محاصرے کو ختم کرانے کے لئے آج تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور اوپر سے المیہ یہ کہ جب بھی مقامی لوگ طالبان کا محاصرہ توڑنے کے لئے اپنے طور لشکر کشی کرتے ہیں سرکاری فورسز میدان میں کود پڑتی ہیں چنانچہ پچھلے دنوں بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آیا ۔بہرحال مالت جعفریہ کے قائدین اور سرکردہ شخصیاتد کے بیانات اور الزامات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور اگر قوم میں فوج عدلیہ اور حکومت پر سے اعتماد اٹھ گیا تو اس کے ممکنہ نتائج کو سنھبالنا شائد آسان نہ ہوگا ۔