
کراچی یونیورسٹی میں بم کا پہنچنا سیکیورٹی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے، دہشت گردوں کی سرپرستی اور ہمارے بے گناہ طلبہ کی گرفتاری ملک کو بند گلی میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنماﺅں نے کہا کہ سیاسی اعتبار سے اس وقت ملک کس طرح کی بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہے۔ اس سلسلے میں آج جتنی ضرورت قومی وحدت اور یکجہتی کی محسوس کی جا سکتی ہے،شاید ہی کسی اور موضوع کی ہو۔ لہٰذا فرقہ وارانہ حرکتوں اور اقدامات اور کسی مکتبہ فکر کے جوانوں کو بے جا تنگ کرنا اور حکومتی اداروں کی جانب سے ان کا اغوا اور والدین اور
خاندان والوں کی پریشانیوں کا ازالہ نہ کرنا،کسی کی بھی مصلحت میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی سرزمین میں گزشتہ دو ماہ میں اٹھارہ بے گناہ جوانوں کا اغوا اور کسی بھی عدالت میں ان کا پیش نہ کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری سکیورٹی کے ادارے خود لاقانونیت کے ایسے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کی تمام تر لاقانونیت کے باوجود ہماری آزاد عدلیہ کسی طرح کا اقدام کرنے پر مائل نہیں۔ 11 محرم الحرام سے اب تک 10 بے گناہ نوجوانوں کو اغوا کر لیا گیا اور کوئی سرکاری ایجنسی اس جرم کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں کراچی یونیورسٹی میں نماز کے بعد ہونے والا بم دھماکہ جس میں ہمارے 20 طالب علم زخمی ہوئے جن میں سے چار جوانوں کی حالت تشویشناک اور پولیس افسر اس واقعہ کو کریکر کا دھماکہ قرار دیکر خاموشی اختیار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی ایک حساس تعلیمی ادارہ ہے ایسی جگہ بم اور بارود کا پہنچنا خود حکومت اور سیکیورٹی کے ذمہ داروں کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں 35 فیصد طلبہ مکتب اہل بیت سے تعلق رکھتے ہیں اور 7مساجد موجود ہیں لیکن ہمارے ان طلبہ کو نہ کوئی مسجد دی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی پلاٹ۔ آج کیفے ٹیرٹا کے جس حصے میں دھماکہ کیا گیا وہاں ہمارے طلبہ صفیں بچھا کر نماز پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ محرم الحرام کے آغاز سے لیکر اب تک کوہاٹ اور ہنگو میں دو خودکش حملے ہوئے،جس میں 20 سے زیادہ عزادار اور بے گناہ مسلمان شہید ہوئے۔ عاشور میں جلوس پر مارٹر گولے برسائے گئے اور 8 افراد شہید ہوئے، شکارپور میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ سرگودھا ساہیوال میں علم مبارک جلایا گیا۔ پنڈدادنخان میں جلوس عزا پر فائرنگ کی گئی۔ اوکاڑہ میں جلوس روکنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ ایک طرف دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی، دوسری طرف ہمارے بے گناہ جوانوں کا اغوا،تیسری جانب جلوس سید الشہداء کو روکنے کی مذموم کوششیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت چار کروڑ شیعہ عوام کو بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت اگر ان معاملات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی تو ہمیں اپنی قومی حکمت عملی اور پالیسی وضح کرنی پڑے گی۔