مجلس وحدت المسلمین کا سانحہ مستونگ کے خلاف ملک بھر میں دھرنوں کا اعلان
شیعہ نیوز (کوئٹہ ) مجلس وحدت المسلمین کے رہنما وں نے ا علان کیا ہے کہ جب تک وفاقی حکومت ان سے مذاکرات نہیں کرتی اور ان کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے، وہ لاشوں سمیت دھرنا جاری رکھیں گے۔ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں دھماکے میں ہلاک ہونے والے شیعہ زائرین کے لواحقین کوئٹہ میں علمدار روڈ پر مرنے والوں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر شہروں میں بھی سانحہ مستونگ کے خلاف دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔مجلس وحدت المسلمین کے رہنما اور بلوچستان اسمبلی کے رکن سید محمد رضا نے بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جب تک وفاق کا کوئی نمائندہ ہم سے مذاکرات نہیں کرتا اور ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے تب تک ہم لاشوں کی تدفین نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ’جب تک وفاقی حکومت ہمارے ساتھ مذاکرات نہیں کرتی اور لولی پاپ دینے کے بجائے حقیقی معنوں ہمارے مطالبات نہیں مانتی، ہم لاشوں کی تدفین نہیں کریں گے۔‘ اس سے پہلے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی بس کے قریب دھماکے میں کم از کم ۲۸ افراد ہلاک اور ۳۰ زخمی ہوگئے تھے۔
مستونگ کے ڈی پی او محمد عابد نے بی بی سی کو بتایا کہ بم ڈسپول سکواڈ نے اس حملے میں 100 کلو بارودی مواد استعمال کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس قافلے کی سکیورٹی پر چار گاڑیاں مامور تھیں، لیکن خودکش بمبار نے اپنی گاڑی بس سے ٹکرا دی۔ اس سے قبل اسسٹنٹ کمشنر مستونگ شفقت انور شاہوانی کے مطابق شیعہ زائرین کی دو بسیں ایران سے واپس آ رہی تھیں کہ درنگڑ کے علاقے میں ان کے راستے پر دھماکہ ہوا اور ایک بس اس کی زد میں آ گئی۔ ان کے مطابق دھماکے کے بعد بس میں آگ بھی بھڑک اٹھی۔شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔مستونگ تھانے کے اہل کار عبدالفاتح نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ دھماکے کی نوعیت کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی فوری طور پر امدادی کارکن اور سکیورٹی اداروں کے اہل کار بھی جائے وقوع پر پہنچ گئے اور طبی ذرائع کے مطابق زخمیوں کو سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔
یہ رواں ماہ بلوچستان میں ایران سے آنے والے زائرین کی بس پر حملے کا دوسرا واقعہ ہے۔اس سے قبل یکم جنوری کو کوئٹہ شہر کے مغربی بائی پاس پر اختر آباد کے علاقے میں ایسی ہی ایک بس پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں حملہ آور سمیت دو افراد ہلاک اور پولیس اہل کاروں سمیت متعدد زخمی ہوگئے تھے۔اس سے پہلے بھی کوئٹہ تفتان قومی شاہراہ پر مستونگ کے علاقے میں ایران میں زیارتوں کے لیے کوئٹہ سے جانے والے یا ایرن سے واپس آنے والے زائرین پر کئی حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں کے بعد ایسی بسوں کو لیویز اور ایف سی کی گاڑیوں کے ساتھ قافلے کی صورت میں ایرانی سرحد تک لایا اور لے جایا جاتا ہے اور درنگڑ میں ہی اکتوبر 2013 میں ایسے ہی ایک حملے میں ایف سی کے دو اہل کار بھی ہلاک ہوئے تھے۔