منورحسن کی جماعت اسلامی ، پاکستان کی نہیں طالبان کی حامی ہے ، رابطہ کمیٹی
شیعہ نیوز (کراچی) متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کی جانب سے طالبان کی حمایت میں کی جانے والی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کی وحشت و بربریت کی حمایت انسانیت دشمنی ہے۔ دہشت گرد، فوج ، پولیس اور شہریوں پر خودکش حملے کر رہے ہیں، دہشت گرد خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ طالبان نے فوج کے جواں سال میجر جہانزیب کو شہید کر دیا لیکن منور حسن کو اس پر کوئی دکھ نہیں ہوا، حتیٰ کہ دہشت گردوں نے اپنی قید میں موجود ایف سی کے جوانوں کو انتہائی بیدردی سے ذبح کر دیا اور ان کی سربریدہ لاشوں کو سڑک پر گھسیٹا لیکن منورحسن اس درندگی اور وحشت و بربریت کی مذمت کرنے سامنے نہیں آئے اور منصورہ میں آرام سے بیٹھے رہے لیکن جب پاک فوج نے ان سفاک دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی تو منورحسن سراپا احتجاج بن گئے ہیں اور پریس کانفرنس کر کے فوج اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ جب فوجی جوانوں کے گلے کاٹے گئے تو منورحسن کو سانپ سونگھ گیا تھا لیکن آج فوجی کاروائی کو ظلم قراردے رہے ہیں۔
منورحسن کے اس طرزعمل نے ثابت کر دیاہے کہ وہ اور جماعت اسلامی دراصل اسلام، پاکستان اور انسانیت کے حامی نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کے دشمن طالبان اور ان کی درندگی، وحشت و بربریت اور انسانیت دشمنی کے ساتھ ہیں۔ رابطہ کمیٹی نے کہا کہ اسلام کی سچی تعلیمات اور احترام انسانیت پر یقین رکھنے والے تمام پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ منورحسن اور جماعت اسلامی کے اس گھناوٴنے طرزعمل کا نوٹس لیں اور ان جیسے تمام لوگوں کا سوشل بائیکاٹ کریں اور انسانیت دشمنوں کے خلاف کاروائی میں مسلح افواج کا بھرپور ساتھ دیں۔
دریں اثناء ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے ایک بیان میں طالبان کی جانب سے کیلاش اور چترال میں مقامی آبادی کو بندوق کی نوک پر مذہب تبدیل کرنے کیلئے الٹی میٹم دینے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام، امن و سلامتی کا مذہب ہے اور دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ وہ تمام لوگ جو طاقت کی بنیاد پر اہل اسلام کو کافر اور غیرمسلموں کو مشرف بہ الاسلام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ عمل مذہب اسلام کی روح کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور ایم کیو ایم ایسے کسی بھی عمل کو نہ صرف غیراسلامی تصور کرتی ہے بلکہ سخت ترین الفاظ میں مذمت بھی کرتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ اسکا نوٹس لیتے ہوئے چترال کے عوام کیلئے آئین پاکستان کی روح کے مطابق آزادانہ طور پر زندگی گزار نے کے حق کو یقینی بنایا جائے۔