مضامین

شرم تم کو مگر نہیں آتی

تحریر: غزل رحمان

قوموں کی حمیت اور جرات میدان جنگ میں آزمائی جاتی ہے مگر قوموں کی حمیت کا اندازہ بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے تاریخی حقائق کے ساتھ کیسا انصاف کرتی ہے اس کو ضبط تحریر میں لا کر کیسے محفوظ رکھتی ہے یا اپنے شہدا کو کس طور یاد رکھتی ہے، سب سے خوش آئند بات تب ہے جب لکھاری سچائی سے کام لے مگر جب اسی کام کو قوموں کے تاریخی حقائق موڑنے کے لئے استعمال کیا جائے اور جھوٹ اور افتراق سے کام لیا جائے تو اس قوم کے زوال پذیر ہونے میں کوئی شبہہ نہ رہنا چاہیے۔ شیعہ قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی جو آج کل دیکھنے میں آ رہی ہے کہ یہ قوم شہدا پرست ( مردہ پرست ) بن چکی ہے، قوم میں نئے شیعہ ٹھیکیداروں نے بجائے قوم کی خدمت کا ٹھیکہ اٹھانے کے شہدا کا نام استعمال کرنے کا ٹھیکہ اٹھا لیا اور ایسے رنگ برنگے لوگ بھرتی کئے جو شہدا کے خون کو بیچنے سے لے کر ان کے بارے میں من گھڑت روایات بیان کر رہے ہیں اور قوم کے ساتھ سخت غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں، ایسا ہمیں اسلامی تاریخی روایات سے بھی ملتا ہے جس میں ایسے لوگ بھرتی کئے گئے تھے جنہوں نے اپنے مطلب کی احادیث گھڑیں اور انکے جھوٹ کی وجہ سے خلیفہ وقت نے ان کو درے لگواۓ تھے، بہرحال ہمیں اس میں کوئی حیرت نہ ہونی چاہیے جو لوگ غدیر جیسے واقعے سے کھلے عام انکار کر سکتے ہیں ان کےلئے ایسا معمولی ہے اور لگتا یونہی ہے کہ شیعہ قوم کے ساتھ ایسا کھیل ایسے ہی واقعات کو سامنے رکھ کر کھیلا جا رہا ہے۔

یہ سب تمہید اس لئے ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے پاکستانی شیعہ قوم کے مجاہد و شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی سوشل میڈیا پر ہر شیعہ فرد خوب زور و شور سے منا رہا ہے اور قوم کے نئے ٹھیکیداروں نے لفظوں کی جادوگری دکھا کر اشاروں کنایوں میں نوجوان طبقے کا ذہن تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی جب اعتراضات اٹھائے گئے تو کہا گیا کہ شہید کسی کی ذاتی جاگیر نہیں یقینی طور پر ایسا ہی ہے مگر شہید کا یہ مقام بھی نہیں کہ جس کا جو دل آئے بولے۔ آدھا سچ قوموں کے ساتھ غداری ہے۔ تحریریں تو بہت پڑھنے کو ملیں مگر دو روز قبل سے سوشل میڈیا پر ایک آرٹیکل گردش میں ہے جس کے لکھنے والے کا پتہ لگانے پر معلوم ہوا کہ ایسے کسی شخص کا وجود تحریک یا کسی شیعہ تنظیم سے نا ہے تو یقیناً تحریر لکھنے کے لئے ایک جعلی نام استعمال کیا گیا ہے۔ اگر اصلی نام سے آیا جاتا تو شاید مزید حقائق کا انکشاف ہو سکتا تھا جس کو یقینی طور پر گوارا نہیں کیا گیا۔ ان صاحب نے اپنی تنظیمی خدمات کا ذکر تو کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ڈاکٹر شہید کے بعد سے اب تک وہ خاموش کیوں رہے اور اگر نہیں رہے تو ایسے اور کتنے جھوٹ وہ کتنے نام تبدیل کر کے عوام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے؟

شائد کچھ حضرات کو یہ تو معلوم ہے مشیر مشورہ دینے والے کو کہا جاتا ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ باقاعدہ مشیر کم لوگ ہی تعینات ہوتے ہیں اور ڈاکٹر محمد علی انہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو زندگی کی آخری سانس تک باقاعدہ تحریک جعفریہ کے سیکرٹری اطلاعات رہے۔ ” چیچہ وطنی کے مدرسہ عزیز المدارس میں وفاق علماء کی طرف سے قائم مقام سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی سے ایک NRO سائن کروایا گیا تھا ” اس سے بڑا جھوٹ اور بہتان شائد تاریخ میں نہ بولا گیا ہو کیوں کہ ایسا واقعہ سرے سے ہی وقوع پذیر نہیں ہوا یہ ایسی مضحکہ خیز بات تھی جس نے مجھے مجبور کیا کہ عوام کو صاف طور پر بتایا جائے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے جس شخص نے بڑی سے بڑی سرکش قوتوں کے آگے سر نہیں جھکایا وہ وفاق علماء کی طرف سے NRO پر دستخط کیونکر کرے گا؟ جب کہ وہ ویسے بھی علامہ ساجد نقوی کی حمایت میں تھے؟

شہید قائد عارف حسینی کے ساتھ تعصب برتنے والے وہی ہیں جنہوں نے نہ ان کو تسلیم کیا نہ ہی موجودہ قیادت کو بلکہ اپنی دکان چمکانے کی کوشش کرتے رہے اور ملت کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوئے، قیادت منتخب ہونے کا طریقہ دستور میں لکھا ہے حقیقت میں دستور کے مطابق رائے شماری اعلانیہ ہوتی ہے جو کہ ہوئی بھی مگر بزرگ عالم دین علامہ حیدر علی جوادی نے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالا نہ ہی کوئی اعتراض کیا بلکہ فرمائش کی کہ خفیہ رائے شماری کرائی جائے جس کا احترام کیا گیا اور اس میں بھی علامہ ساجد نقوی اکثریت سے تا حیات قائد منتخب ہوئے۔ رہی بات ڈاکٹر شہید کی بے بسی کی تو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ قطعی بے بس نہیں بلکہ قائد پر جان چھڑکنے والے ایک شخص تھے اور جو بھی اس کے علاوہ کہے وہ سخت جھوٹا اور خیانت کار ہے۔ شہید ڈاکٹر کبھی قائد سے الگ ہی نہیں ہوئے کہ وہ اپنی خدمات پیش کرتے اور خدمات کو ٹھکرایا جاتا جھوٹ اور بہتان جیسی رذالت کی انتہا کردی لکھنے والے نے۔

ڈاکٹر شہید کی قدر قیادت کو ایسی تھی کہ اس وقت جب وہ مختلف کیسز میں گرفتار ہوئے تو قائد ملت جعفریہ نے ایک پریس کانفرنس کی جس کے دو گھنٹے کے اندر ڈاکٹر شہید کو رہا کر دیا گیا اور اس رہائی کے بعد ڈاکٹر شہید نے قائد کے شان میں جو تقریر کی تھی اور جو الفاظ بولے تھے ایک عالم اس کا گواہ ہے اور بچوں کے انداز میں جس طرح بعد میں وہ قائد سے ملے اور قائد کے قدموں کی خاک چومی شائد تاریخ بیان کرنے والے یہ بھول گئے تو سوچا یاد دلا دوں۔ جو صلوات وہ کھلے عام نعرے کی صورت میں قائد شہید اور موجودہ قیادت کے لئے لگواتے تھے اس میں سے قائد شہید والی صلوات تو لوگوں کو بتائی اور دکھائی جاتی ہے مگر اپنے خناس اور تعصب میں موجودہ قیادت کی شان میں کہی گئی صلوات
چھپا لی جاتی ہے اور ویڈیوز اور تحریروں میں ایڈٹ کر دی جاتی ہے۔

یہ تو شہید کی قائد سے محبت تھی مگر اس محبت کا صلہ یوں دیا گیا کہ انکے شہید ہوتے ہی ان کو قائد سے باغی جیسے الفاظ سے پکارا گیا ان کے ساتھ جھوٹ اور بہتان باندھے گئے انکی شہادت کے بعد بجائے انکی عصمت کی حفاظت کی جاتی انکی اہلیہ کو ( خیالی ) خواتین گروپس کو ٹریننگ دینے والی عورت بولا گیا اور ان کے بارے نا زیبا کلمات کہہ کر توہین کی گئی، مگر ان تمام تر ذیل حرکتوں کے بعد آج اسی شہید کی شہادت کیش کرانے والے بھول گئے کہ ابھی اتنا عرصہ نہیں گزرا کہ لوگ یہ سب بھول گئے ہوں یقیناً لکھنے والے کا تعلق اسی بدنام زمانہ گروپ سے ہے جو انہی حرکتوں میں اس وقت بھی ملوث رہے۔ اکثر پرانے تحریکی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسی گروپ نے شہید ڈاکٹر کی شہادت کا بندوبست بھی کیا تھا۔

حیرت یہ ہے کہ پروفیسر مظہر گیلانی جیسی شخصیت پر الزام لگانے والے یہ بھول گئے کہ تحریک اور قوم کا پیسہ راستے میں نہیں پڑا ہوتا کہ جس کا دل ہو اٹھا لے اور کاروبار کر لے بلکہ اس کی باقاعدہ رسیدیں بنتی ہیں، جن کا سالانہ حساب ہوتا ہے اور ایک ہی فرد واحد ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ دس روپے کی پرچی بھی سنبھال رکھتا ہے اور اسکا نام ‘ ساجد نقوی ‘ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کچھ لوگوں نے تحریک کے پیسوں میں غبن کئے اور کچھ نے چوری اور ملک سے فرار ہو گئے اور مال امام کو بچانے کے لئے قائد نے اپنا پیٹ کاٹ کہ وہ پیسا پورا کیا۔ غبن اور چوری والوں کے دو مقاصد تھے ایک اپنا مالی مفاد دوسرا یہ کہ ایسا کر کے وہ قوم کو جھوٹ کہتے اور پوچھتے کہ بتایا جائے کہ وہ پیسا کہاں گیا اور ایسا عملی کیا بھی گیا مگر خدا سچ کا ساتھ دینے والا اور جھوٹوں کو ذلیل کرنے والا ہے۔ اسی عمل پر غدار ٹولہ بے نقاب ہوا اور خدا کی قسم وہ ٹولہ آج بھی قوم کی بیواؤں اور یتیموں کا مقروض ہے اور اسی مکار ٹولے کا ایک معمولی ملازم بھی آج لگژری کاریں استعمال کرتا اور فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام پذیر ہوتا ہے۔

یہی ہیں وہ اصل تلخ حقائق جن کا ذکر ممنوع ہے اور جب جواب دیا جاۓ تو ملت کے تقسیم کار کہتے ہیں کہ ملت کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ آخر میں اصل شاعر سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ

خواب و خیال ہوگئیں اگلی حکایتیں

معرفت حسین خان زمانہ بدل گیا

 

نوٹ: غزل رحمان کا یہ کالم معرفت حسین خان کے کالم کے جواب میں لکھا گیا ہے، ہم تمام افراد کی رائے کا احترام کرتے ہیں، اگر کوئی بھی شخص اس بارے میں اخلاقیات کے دائرہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کالم یا بلاگ لکھ کر ہمیں ارسال کریگا تو اس کو بھی شائع کیا جائے گا۔ شکریہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button