شہید عبدالعلی مزاری، افغانستان کی نڈر انقلابی شخصیت
اسلامی بیداری تین دہائیوں کے بعد افریقہ کے شمال اور مغربی ایشیا میں دستک دینے سے پہلے ہی افغانستان میں اپنی اصلی اور بہترین شکل میں ، ایک خالص اسلامی افکار کے پروردہ مجاہد عالم دین کی قیادت میں ظہور پذیر ہو گئی۔ حجۃ الاسلام شہید مزاری کا چنداں تذکرہ نہیں ہوا ہے، نہ ایران میں اور نہ ہی افغانستان میں! استاد مزاری کا نام اور شخصیت اس حد تک غیر معروف ہے کہ اگر آپ کو شہیدمزاری کے بجائے غریب (اجنبی) مزاری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ آپ کی یہ مظلومیت آپ کی زندگی، شہادت اور شہادت کے بعد کے عرصہ کا جزء لاینفک ہے! مزاری کون تھے اور ایسا کیا کر گئے کہ ہزارہ آپ کو اپنا رہبر کہتے تھے اور وہابیوں نے آپ کی شہادت کی خبر سن کر خوشیاں منائی تھیں! استاد شہید عبدالعلی مزاری کو سمجھنے کے لئے افغانستان کی تاریخ اور ہزارہ قوم کے حالات سے آگاہی ضروری ہے۔
افغانستان میں ہزارہ ہونے کے معنی شیعہ ہونا ہیں۔ لہٰذا یہ بات صاف طور پر کہی جا سکتی ہے کہ افغانستان میں شیعوں کے بغیر ہزارہ اور ہزارہ کے بغیر شیعہ بے معنی ہیں۔ ہزارہ (شیعہ) اپنے وطن میں پچھلے ڈیڑھ سو سال سے کبھی نسلی اور کبھی مسلکی امتیاز کا شکار رہے ہیں، کئی بار ان کا قتل عام بھی ہوا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شیعہ اتنا کہیں بھی مظلوم و محکوم نہیں رہے ہیں جتنا افغانستان میں۔اسی لئے ہزارہ قوم کے لئے شہید مزاری صرف ایک سیاسی قائد نہیں بلکہ حقیقت میں ’’بابا مزاری‘‘ کہے جانے کے قابل ہیں۔ اس لئے کہ آپ تاریخ افغانستان کے سب سے زیادہ حساس حالات میں ایک دردمند باپ کی مثل ظہور پذیر ہوئے اور شیعوں کے حالات پر اپنے عمیق نقوش قائم کئے۔
آپ دنیا کی ان چند شخصیات میں سے ہیں جنہیں کسی قوم یا ملک تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ آپ کے افکار میں مسلمانوں اور دنیا کے دبے کچلے انسانوں کے حالات سے لاپرواہی کی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کہیں پہلوی حکومت کی سرنگونی کے لئے برسرپیکار نظر آئے اور کہیں لبنان اور فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی حمایت اور قائدین مزاحمت کو مشورے دیتے۔ آپ نے چہار کنت کے ایک باعزت مذہبی گھرانہ میں آنکھ کھولی۔ گاؤں کے دینی مکتب میں تعلیم کا آغاز کیا اور عنفوان شباب میں قدم رکھتے ہی اپنی قائدانہ اور ظلم سے مقابلہ آرائی کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
شہید علامہ بلخی کے کہنے پر جوانی میں گھر والوں کی مخالفت کے باوجود عسکری تربیتی مرکز کا رخ کیا اور وہاں عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ قوم کی مظلومیت سے بھی آگاہ ہوئے۔ اُس دوران افغانستان میں اگر کوئی نوجوان دینی تعلیم کا شغف رکھتا تو اسے قم اور نجف میں سے کسی ایک انتخاب کرنا پڑتا تھا۔ مزاری نے اپنی قائدانہ خصوصیات اور انقلابی فکر کی بنا پر قم کا انتخاب کیا اور بہت جلد غیر ایرانی طلبہ میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر ابھرے اور آیت اللہ سید علی خامنہ ای، مرحوم آیت اللہ مشکینی اور آیت اللہ واعظ طبرسی وغیرہ جیسے انقلابی علماء کے دوست و رفیق قرار پائے۔
شہید مزاری پر تحقیق کرنے والے مؤرخ ، بصیر احمد دولت آبادی صاحب آپ کی قم میں رہائش اور امام خمینیؒ سے محبت سے متعلق لکھتے ہیں: ’’استاد مزاری کے لئے امام خمینیؒ ان کا کھویا ہوا خزانہ تھے، آپ نے امامؒ کے لئے قربانیاں بھی دیں اور ایثار و فداکاری کامظاہرہ بھی کیا‘‘۔ یہ محبت انہیں نجف لے گئی، وہاں امامؒ سے ملاقات کی۔ واپس آتے وقت ساواک، جس کے ایجنٹ پہلے سے آپ پر نگرانی رکھے ہوئے تھے، نے آپ کو گرفتار کر لیا ۔آپ کے پاس سے کتاب ’’ولایت فقیہ‘‘ کے کئی نسخے اور امام کے پیغامات برآمد ہوئے۔ گرفتاری کے بعد آپ کو انسداد تخریب کاری جوائنٹ کمیٹی کے ٹھکانہ لے جایا گیا۔ آپ اُن دنوں کو یاد کر کے کہتے ہیں: ’’ایک دن جلتا سگریٹ میرے چہرے پر بجھایا گیا تاکہ میری ہلکی سی ہی چیخ نکلے۔ مگر میں آخر تک اُن کی آنکھ میں آنکھ ڈال خاموشی سے صبر کرتا رہا تاکہ وہ لوگ ایک افغان طالب علم کو ٹوٹتا نہ دیکھ سکیں‘‘۔
یہاں آپ کو شہید رجائی کے سیل میں رکھا گیا اور آپ دونوں دوست بن گئے۔ آخرکار جب ساواک اعتراف کا ایک لفظ بھی آپ کی زبان سے نہ سن سکی تو اس نے آپ کو ملک بدر کر دیا۔ پچاس کی دہائی کے اواخر میں افغانستان کی تاریخ میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے۔ عوام کی جانب سے کمیونسٹ کودتا کی مخالفت نے افغانستان کو سوویت یونین کے لئے میدان جنگ بنا ڈالا اور جہاد شروع ہو گیا۔ حجۃ الاسلام مزاری نے یہاں بھی فعال کردار ادا کیا اور یہ مرحلہ بھی کامیابی سے سر کر لیا۔ آپ نے شیعہ مجاہدین کے حالات کاعمیق جائزہ لے کر سنہ۶۵ش میں اُن کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی کوششیں شروع کر دیں۔ کئی بار بے وفائی کا سامنا کرنے کے باوجود آپ کی انتھک محنت رنگ لائی اور سنہ۶۸ش میں آٹھ تنظیموں کے ادغام سے حزب وحدت اسلامی کا وجود عمل میں آ گیا۔ حزب کی نشست میں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی آپ کو اتفاق آراء سے تنظیم کا جنرل سکریٹری مقرر کر لیا گیا۔
سوویت یونین کی شکست اور اس کامیابی میں شیعوں کے ناقابل انکار کردار کے سامنے آتے ہی کچھ مجاہدین نے علاحدگی کا طبل بجانا شروع کر دیا۔ سوویت یونین کی سرخ افواج کے افغانستان کے انخلاء کے بعد یہ ملک امن، انصاف اور آزادی کا گہوارہ بن سکتا تھا لیکن کچھ مجاہدین کی ہوس اقتدار کے نتیجہ میں کابل اور کئی دیگر شہروں کی سڑکیں میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگیں۔ پشاور میں احزاب کا اجلاس ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس
بار بھی شیعوں کا جائز مقام تسلیم نہیں کیا گیا اور ماضی کے سارے عہدو پیمان توڑ ڈالے گئے۔ مختصریہ کہ کچھ مجاہدین کی انا پرستی کے نتیجہ میں بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا ہو گیا اور خانہ جنگی پھیلنے لگی۔ جس کے نتیجہ میں طالبان برسراقتدار آ گئے۔ مجاہدین کی کابل میں آمد سے لے کر شہید مزاری کی شہادت تک حزب وحدت نے ایک لمحہ بھی سکون کا نہیں گذارا اور اسے کئی لڑائیاں جھیلنی پڑیں۔ وہابیت کی تحریک پر کچھ مجاہدین نے بڑے پیمانہ پر شیعوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ اس کی ایک مثال افشار محلہ پر حملہ ہے، یہاں تین ہزار، ہزارہ شیعہ شہید کر دیے گئے۔ سنہ۷۳ش میں طالبان نام کا ایک گمنام گروہ ظہور پذیر ہو کر پیش قدمی کرنے لگا۔ استاد مزاری ایک وفد کے ساتھ اُن سے گفتگو کے لئے گئے مگر طالبان نے انہیں سخت ایذائیں دیں اور انتہائی بزدلانہ انداز میں آپ کو شہید کر دیا۔
قوم پرستی امت مسلمہ کی تقسیم کا نقطۂ آغاز:
بابا مزاری دیگر مجاہد قائدین کے درمیان کچھ ایسی نمایاں خصوصیات کے مالک تھے جن کے سبب آپ کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ ایسے وقت میں جب مجاہد تنظیموں کے سربراہ ملکی سرمایہ لوٹ کر اپنی قوم میں سب سے زیادہ دولت مند شخص بنتے جا رہے تھے شہید مزاری وہی سادہ ہزارہ لباس پہنتے اور آخر عمر تک اسی لباس میں نظر آئے۔ قائد ہونے کے با وجود گھر والوں سے کہتے کہ پشم بن کر گھر کا خرچ چلائیں۔ آج آپ کی شہادت کے اٹھارہ سال بعد بھی آپ کے اہل خانہ قم میں عزت کے ساتھ سادہ زندگی گذار رہے ہیں۔ چودہ سالہ جہاد اور مزاحمت کے دوران آپ کے دو بھائی، ایک بہن، والد اور خاندان کے دیگر اراکین نے بھی شہادت پائی لیکن آپ نے کبھی اپنی بڑائی (یا ذاتی مفاد)کے لئے ان کا نام استعمال نہیں کیا۔ امام خمینیؒ کے وکیل ہونے کے باوجود امام کی شاگردی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے اور یہ اعلان کرتے نظر آتے کہ ’’اگر کسی مرحلہ پر اسلامی جمہوریہ خطرہ میں ہو تو ہم پر افغانستان کے مسائل سے کنارہ کشی اختیار کرکے اسلامی حکومت کا دفاع واجب ہے‘‘۔ آپ امام خمینیؒ کی اطاعت اور اسلامی جمہوری نظام حکومت کی حمایت کو ضروری سمجھتے تھے۔
سوچ سمجھ کر اور بر بنائے نادانی دونوں لحاظ سے استاد مزاری کو قوم پرست ثابت کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن اس امر پر بے شمار شواہد موجود ہیں کہ آپ اسلامی افکار کے زیر اثر ہر قسم کی قوم پرستی اور نیشنلزم کے مخالف تھے۔آپ نے افغانستان کے کسی قوم و قبیلہ کی نفی نہیں کی اور اعلان کیا کہ ’’ہمارا اتحاد کا ایک مقصد یہ ہے کہ ایک امت مسلمہ کی تشکیل ہو۔ اس لئے کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اسلام کو نقصان پہونچانے اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے عالمی استکبار نے مسلم معاشروں میں قوم پرستی کا موضوع اجاگر کیا ہے۔اس کے ذریعہ یہ لوگ امت مسلمہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہتر طور پر اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
آپ مظلوم ہزارہ عوام کی نجات کے لئے کوشاں تھے اور ان سے کہا کرتے تھے ’’ آپ کے مفادات سے ہٹ کر میرا کوئی مفاد نہیں ہے‘‘۔ آپ نے ایک وعدہ کیا تھا جسے اس طرح بیان کرتے تھے : ’’مجھے فخر ہے کہ میں نے آپ لوگوں سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ آپ کے حق کا طلبگار رہوں گا۔ میں نے عہد کیا ہے کہ آپ عوام کے سیاسی و مذہبی حقوق پر کبھی کوئی سمجھوتہ اور خیانت نہیں کروں گا‘‘۔
تاریخ گواہ ہے کہ لوگوں نے بابا مزاری کی زبان سے حق اور حقیقت کے سوا کبھی کچھ نہ سنا۔ اکثر جہادی رہبر میدان جنگ سے فرار کر کے محلوں میں بیٹھ کر خانہ جنگی کی قیادت کر رہے تھے لیکن شہید مزاری ہمیشہ فرنٹ لائن پر شیعوں کا دفاع کرتے رہے، مغربی کابل میں مزاحمتی دستہ کے کمانڈر تھے۔ مظلوم ہزارہ عوام آپ کو کبھی بھول نہیں سکتے۔افشار اور چنداول (کابل کے شیعہ آبادی والے محلے) کا چپہ چپہ شہید بابا مزاری کی صداقت کا گواہ ہے جنہوں نے عوام سے کہا تھا ’’ میں چاہتا ہوں کہ میرا خون یہاں آپ کے پاس بہے، آپ کے درمیان مارا جاؤں ، آپ سے دور رہ کر زندگی گذارنے کی میرے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے‘‘۔