شیعہ سنی اتحاد اور تکفیری
تحریر: تصور حسین شہزاد
اتفاق میں برکت ہے، یہ وہ سبق ہے جو پرائمری کی کلاسوں میں ہی بچوں کو پڑھا دیا جاتا ہے اور اس کی افادیت سے روشناس کرانے کے لئے کہانیوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور نصاب میں ایسی کہانی شامل کی جاتی ہیں جن کے تناظر میں بچے اتفاق و اتحاد کی برکت کی افادیت سمجھ جاتے ہیں اور ان کہانیوں کو نصاب میں شامل کرنے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ بچے عملی زندگی میں اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کریں۔ دنیا کے تمام مذاہب اتحاد، بھائی چارے، برداشت اور بردباری کا درس دیتے ہیں۔ صرف وہ مکتب فکر اور گروہ جن کی بنیاد ہی دہشت، خوف، ہٹ دھرمی اور زور زبردستی پر ہو وہ انسانی حقوق کے ان روشن اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اپنے مفاد کے لئے ہر قدم اٹھانے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں جو غیرقانونی و غیرانسانی ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ایک جنگ کی کیفیت ہے۔ یہ جنگ حق اور باطل کے درمیان ہے۔ ویسے تو یہ جنگ ازلی ہے اور ابد تک جاری رہنی ہے لیکن پاکستان کے محاذ پر یہ یہ جنگ سرد کی کیفیت سے نکل کر گرم کی حالت میں منتقل ہو چکی ہے۔ اس میں پاکستان کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طرف امن پسند، پاکستان دوست، اور باوقار شہری ہیں۔ ان میں شیعہ سنی ہندو سکھ، عیسائی سب شامل ہیں جبکہ ان کے برعکس چند مٹھی بھر تکفیری دہشت گرد ہیں جنہوں نے اپنے چند بندے میڈیا میں بٹھا کر کچھ کو فورسز میں دھکیل اور کچھ کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا کر اپنی ایک ورتھ بنائی ہے اور کسی حد تک وہ سٹک ہولڈر بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اب ٹی وی چینلز پر ان کو امن پسندوں کے سامنے بٹھایا جاتا ہے۔ ان سے عزت و احترام کے ساتھ بات چیت کی جاتی ہے اور ان کی دہشت گردی کو بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
امن پسندوں میں شیعہ اور سنی ہیں۔ ان کے ساتھ ملک کی اقلیتیں بھی جن میں عیسائی، ہندو اور سکھ شامل ہیں وہ بھی اس لئے ساتھ ہیں کہ وہ امن پسند اور محب وطن ہیں۔ یہ امن پسند طبقہ تکفیریوں اور حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا یہی وجہ ہے کہ آئے روز ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ ان کو تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور انہیں محدود کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں لیکن چونکہ اتحاد اور اتفاق میں برکت ہوتی ہے اس لئے یہ ان سازشوں کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں اور دشمن اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔
خیرپور میں شیعہ اور سنی نے باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایک کانفرنس بنام لبیک یارسول اللہ کانفرنس کا انعقاد کیا اور سندھ حکومت کو اتحاد کہاں پسند ہے وہ تو انگریز کے شاگرد ہیں جس کا اولین اصول ڈیوائیڈ اینڈ رول ہے۔ تو سندھ حکومت نے کانفرنس کی اجازت نہ دی لیکن اتفاق کی برکت سے کانفرنس ہوئی اور تاریخ کی بوڑھی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ شیعہ اور سنی نے اپنے اتحاد کو مثالی مظاہرہ کر کے تکفیریوں سے اظہار برائت کر کے واضح کر دیا کہ محب وطن کون ہیں اور ملک دشمن کون ہیں، یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد اور ان کے حامی آج کل ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے کئے جانے والے آپریشن کے بعد دہشت گردوں کی عقل ٹھکانے آ گئی اور فوری جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ ہماری حکومت جو سعودی دماغ سے سوچتی ہے، سعودی آنکھ سے دیکھتی ہے اور سعودی پیسے سے چلتی ہے، وہ سعودی عرب کے ایما پر ہی دہشت گردوں کے جھانسے میں آ گئی اور طالبان کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
اب اس جنگ بندی کا فائدہ حکومت کو نہیں بلکہ شدت پسندوں کو ہو رہا ہے اور پہلے سے بڑھ کر تیاری کر رہے ہیں تاکہ آخر میں جب وہ مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کریں گے تو بھر پور طریقے سے وار کر سکیں۔ تب حکومت کو نہ سعودی عرب نے تحفظ دینا ہے اور نہ امریکہ اسے بچا سکے گا کیوں کہ سعودی عرب کی عبا کے اندر امریکہ ہی ہے جو مسلم دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے اور سعودی عرب کے ذریعے وہ مسلم کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ خیر اس جنگ بندی کے بھیانک نتائج بہت جلد ہماری یہ حکومت بھگت لے گی اس میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا کیوں کہ دہشت گردوں کا اپنا کو دماغ نہیں، ان کی ڈوریاں افغانستان سے ہل رہی ہے اس کا کنکشن براستہ سعودی عرب پینٹاگون سے جا ملتا ہے اور اس کنکشن کی وجہ سے شدت پسند کبھی بھی امن کے لئے رضا مند نہیں ہوں گے، بچھو کی فطرت ہی ڈسنا ہے اس نے تو ڈسنا ہے، اس سے آپ بردباری کا کام نہیں لے سکتے۔ یہی سادہ سی بات ہماری ریمورٹ کنٹرول حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔
خیر، ملک میں شیعہ سنے رہنماؤں نے اپنے اتحاد سے ثابت کر دیا ہے کہ ملک دوست کون ہیں اور ملک دشمن کون ہیں۔ اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین کے علامہ ناصر عباس، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا اور وائس آف شہدا کے سید فیصل رضا عابدی لائق تحسین ہیں جنہوں نے کم از کم ملک دشمنوں کے چہروں نے نقاب تو الٹ دی ہے۔ اب شنید ہے کہ شیعہ سنی کے اس اتحاد کے خلاف سازشیں بننا شروع ہو گئی ہیں اور دشمنوں کی کوشش ہو گی کہ شیعہ سنی کے اس اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس اور صاحبزادہ حامد رضا کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے اور امید ہے کہ جس طرح ملک دشمنوں کو انہوں نے بےنقاب کیا ہے اسی طرح اب ان کی سازشوں کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے کے پھوڑ دیں گے۔ قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔