مضامین

رنجِ شکیبائی

تحریر: سید شجاعت کاظمی

انقلابِ ایران پوری دنیا میں موجود ایک اللہ کے نام لیواؤں بالخصوص پاکستانیوں کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر حریت اور آزادی کی روح پھونک رہا ہے کہ اس اکیسویں صدی میں باطل کے تمام تر ہتھکنڈوں، سازشوں اور کثیر الجہاتی تابڑ توڑ حملوں کی موجودگی میں بھی اگرعزمِ مصمم لے کر اٹھا جائے تو بڑی سے بڑی طاقت کو ریت کی دیوار کی طرح گرایا جا سکتا ہے اور نمرودی طاقتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے نشانِ عبرت بھی بنا یا جاسکتا ہے۔ انقلاب ایران پاکستان میں سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے منتظرین کو پیغام د ے رہا ہے کہ امام مہدی کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے میں مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کا تدارک صرف اور صرف جواں مردی کے ساتھ خارجی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانے میں پنہاں ہے۔ انقلابِ ایران اپنے اندر ایک نمایاں اور حیرت انگیز خوبی رکھتا ہے جس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ایک طرف تو یہ آمریت اور مغربیت کے سنگم کا خاتمہ کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے معاشرے پر پڑنے والے تمام اثراتِ بد کو منہدم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بعد از انہدام پھر اپنے ایرانی اور اسلامی کلچر کے تحفظ اور بقا کا ضامن بھی بن جاتا ہے۔ انقلاب کے حالات و واقعات اور اسباب و اثرات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ ا یرانی انقلاب مکمل طور پر سماجی انقلاب تھاکہ جو برپا ہوا جس میں عام آدمی سمیت تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے کم و بیش معاشرے کے سبھی افراد شریک تھے۔ انقلابِ ایران کی انفرادیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اس نے اپنے ثمرات صرف اہلِ ایران کو ہی نہیں دیئے بلکہ یہ دیگر اقوام میں بھی بیداری کی روح پھونکنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آج واعظ مسلم امہ کا جگانے کے لیئے جہاں کربلا کی مثالیں دیتے دکھائی دیتے ہیں وہیں ایران کا ذکر کیئے بغیر بھی نہیں رہتے۔ یقیناً جب جب ظلم کے خلاف رسمِ شبیری دہرائی جاتی رہی گی تاریخ اس رسم کو اپنے پاس سنہری اور جلی حروف میں محفوظ کرتی جائے گی۔

ملتِ ایران نے انقلاب برپا کرکے جہاں اپنے لیئے جرات اور ثابت قدمی کی راہ کو متعین کیا وہیں ساری دنیا کے مجبوروں، مظلوموں اور بے آسرا افراد کو خود اعتمادی کی نوید بھی سنا دی۔ انقلابِ ایران اچانک رونما ہونے والے کسی واقعے یا پالیسی کا ردعمل نہیں بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے وقتاََ فوقتاََ شاہِ ایران کے غلط طرزِ عمل، حق تلفیاں اور غیر فطری افکار و نظریات، عوام کے ذہنوں میں ہیجان اور شاہ کے خلاف بغاوت کا جذبہ پیدا کرتے رہے۔ شاہِ ایران کے آمرانہ رویوں نے ایران کے اقتصادی و معاشرتی مسائل میں اضافہ کر دیا تھا تو دوسری طرف عوام سے ان کی سیاسی آزادیاں بھی سلب کر لی تھیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایران کو نئے نئے پروگرامز دے کر پوری سوسائٹی کو مغربی معاشرت کا عکاس بنانے پر تلا ہوا تھا۔ پھر چشمِ فلک نے بھی وہ منظر دیکھا جب ایرانی قوم ان زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف سیسے پلائی دیوار بن کر اٹھ کھڑی ہوئی اور ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ایران کو ایک مستحکم، جمہوری اور فلاحی ریاست بنا کر دم لیا۔ انقلابِ ایران محظ منتقلی اقتدار یا منتقلی نظام کا نام نہیں بلکہ اس کے اثرات عام آدمی کی زندگیوں پر بھی پڑے۔ شاہِ ایران ایرانی معاشرے کو مسلم معاشرے سے ہٹا کر مغربی معاشرے میں تبدیل کر رہا تھا جہاں مرد و زن کے اختلاط اور قص و شراب کی محفلوں کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ جدید تعلیم کے نام پر نسل نو کو مغربی افکار و نظریات کا دلدادہ بناکر معاشرتی فساد برپا کیا جا رہا تھا۔

انقلابِ ایران نے آگے بڑھ کر اس مغربی یلغار کا مقابلہ کیا اور معاشرتی بد عنوانیوں اور انحطاط کا خاتمہ کیا۔ پہلوی اقتدار میں امریکیوں کو غیر معمولی آزادی حاصل تھی اور شاہ کا امراء پر لطف و کرم بھی کچھ زیادہ ہی تھا جو غریب و امیر کے درمیان خلیج پیدا کر رہا تھااور پہلوی پر ملکی اثاثوں اور خزانوں کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی تھے۔ مگر ان تمام تر خطرات کو ایرانی قوم نے بھانپ لیا اور ان ذرائعوں اور جڑوں کو کاٹ کر پاش پاش کر دیا جو ایرانی ثقافت اور اسلامی شناخت کو ملیا میٹ کر رہے تھے۔ پاکستان کو جن مسائل کو سامنا ہے، اگرچہ بعض مقامات پر مماثلت پائی جاتی ہے وہ ایران سے سے بھی سخت نوعیت کے ہیں۔ ساری دنیا کے احزاب پاکستان کی مغربی سرحدوں پر مورچہ زن ہیں اور اپنے ایجنٹوں کے ہاتھوں ہمارے ملک میں تخریب کاری کروا رہے ہیں۔ مشرقی سرحد پر بھارت اپنی چھیڑ چھاڑ جاری رکھتا ہے اور اندرونی طور پر مسلمان نوجوان کے جسم سے حرارتِ ایمان نکالنے کے لیئے قسم قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیئے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی تاریخ ، اپنے ماضی ، اپنی شناخت اور اپنے ورثے سے دور رکھنے کے لیئے ان کو الیکٹرانک میڈیا کا رسیا بنا دیا گیا ہے۔ جی ہاں اب نوجوانوں کی بہکانے کے لیئے ان کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھمانے کی ضرورت نہیں، ان کو راہِ راست سے اغواء کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں میں پائے جانے والی الیکٹرانک ڈیوائس ہی کافی ہے جس کے منفی پہلوؤں پر بات کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیوں کہ یہ ہر ایک کے مشاہدے میں ہے۔ با الفاظ دگر پہلے بدنوں کو غلام بنایا جاتا تھا لیکن اب ہماری روح اور ہمارے ذہن کو قابو مین کر لیا گیا ہے یا یوں کہیئے کہ وہ تسخیرِ قلوب میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

جن حضرات نے اپنے ماضی سے با خبری رکھنے کی کوشش کی ہے ان کو دشمن نے ایسے اختلافات میں الجھا کر رکھ دیا ہے جس سے ایسے لگتا ہے کہ امت
میں کبھی مل بیٹھنے کا رجحان پیدا نہیں ہو گا۔ جوں جوں باطل اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے مکر اور چالیں چل رہا ہے وہاں اللہ رب العزت کی ہستی بھی اپنی تدبیر فرما رہی ہے جس کو صرف وہی آنکھ دیکھ سکتی ہ جو یقین کی لافانی منزل پر فائز ہے۔ہمارے نزدیک جس جس طرح گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے امت میں اتحاد اور یکجہتی کی فکر پروان چڑھ رہی ہے۔ وحدت کی فکر اب شعور بن کر ہر ایک دروازے اور ہر ایک گھر تک پہنچ رہی ہے۔ سارا زور اختلافات پر صرف کرنے والوں نے اختلافات کے نتائج دیکھ لیئے ہیں۔ نفرتوں اور دوریوں کے شعلوں کو محبت اور یگانگت کا پانی بجھا سکتا ہے۔ اگر تحریک ختم نبوت میں تمام مکاتب فکر کے علماء یکجا ہو سکتے ہیں اور تمام مکاتب فکر کے مقتدر علماء کے اتفاق سے متحدہ مجلس عمل معرضِ وجود میں آسکتی ہے تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غاصبوں اور لٹیروں سے نجات دلانے کے لیئے فرقہ پرستی کی سیاست کو ترک کر کے آئندوہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت اور دینی اقدار کے احیاء کے لیئے جو ایک ہونے کے لیئے تیار نہیں وہی غدارِ وطن اور ننگِ دین و ملت ہے۔ سیاستِ مدینہ میں میں انقلاب کی ابتداء مواخات سے ہوئی تھی۔ اسلامی جموریہ پاکستان میں انقلاب کی ابتداء بھی بھائی بھائی بننے اور اس رشتے کو نبھانے میں ہی پوشیدہ ہے جو امت مسلمہ سے مایوسیوں اور شکستہ حالیوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ اہداف اور مقاصد ایک ہونے کے باوجود مسلمانوں میں پایا جانے والا انتشار نفس پرستی نہیں تو اور کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button