مضامین

عرب شیوخ کی مہربانیاں

تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
پاکستانی عوام کی خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی، گذشتہ چند ماہ سے کچھ عرب ریاستیں ہم پر بہت مہربان ہیں۔ ان مہربانیوں نے سبھی پاکستانیوں کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یوں اچانک سے ان مہربانوں کا مائل بہ کرم ہو جانا ہر صاحب فکر و نظر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ عرب شیوخ جس دھرتی پر پاؤں دھریں، وہاں پیسہ پانی کی مانند بہایا جاتا ہے۔ بہت سے شعبہ جات میں سرمایہ کاری ہوتی ہے، لاتعداد پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ ملک کی معیشت وقتی طور پر بہتری کی جانب سفر کرتی ہے۔ معاشی مسائل کم ہونے لگتے ہیں۔ یہ ان دورہ جات کا مثبت پہلو ہے۔ لیکن ان دورہ جات کا ایک منفی پہلو بھی ہے، جس سے کسی بھی صورت پہلو تہی نہیں کی جاسکتی۔ اگر اس پہلو سے آنکھ بچائی جائے یا بچانے کی کوشش کی جائے تو پھر وہ صورتحال جنم لیتی ہے جس سے پاکستان گذشتہ تین دہائیوں سے نبرد آزما ہے۔ عرب ریاستوں کو پاکستان کی کیا ضرورت ہے؟ وہ کیوں ہماری جانب ایک دم متوجہ ہوئے؟ ان کی ایسی کونسی کمیاں ہیں جو وہ ہمارے ذریعے پر کرنا چاہتے ہیں؟ عرب ریاستوں کی مدد بالخصوص سعودی عرب اور بحرین کی مدد عالمی سطح پر پاکستان کو کس بلاک کا حصہ بنائے گی اور اس جنگ میں شامل ہو کر پاکستان کا آئندہ مستقبل کیا صورت اختیار کرنے والا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر دانش مند انسان کے ذہن پر دستک دے رہے ہیں۔

 سعودی فرمانروا کی آمد ہو یا بحرینی شاہ کا دورہ، ان دونوں دورہ جات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی حالات بالخصوص شام میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں یہ دورہ جات اور بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان دورہ جات کے مادی فوائد کسی سے پنہاں نہیں ہیں، لہذا ان فوائد پر بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ مسئلہ تو ان مادی فوائد کے پیچھے چھپی ہوئی سیاسی چالوں کا ہے۔ بحرین پاکستانی فوج سے استفادہ چاہتا ہے، سعودیہ ہمارے فوجی تجربات اور ہتھیاروں کو خریدنے آیا ہے، یہ سب ذیلی موضوعات ہیں۔ ان فرمانرواؤں کا اچانک پاکستان کے عوام پر یوں مہربان ہو جانا حکمت سے خالی نہیں۔ گذشتہ پانچ سال ملک بہت سے بحرانوں سے دوچار رہا، پورے پانچ سال ہمارے ملک میں توانائی کا فقدان تھا، اکثر آٹے، تیل، پیٹرول کی قلت سڑکوں پر مشاہدہ کی جاتی رہی، لیکن اس سب کے باوجود سعودیہ، بحرین، عرب امارات سمیت کسی بھی مسلم یا غیر مسلم ریاست نے ہماری جانب مدد کا ہاتھ نہ بڑھایا۔

لیکن اب اچانک ہمارے برادر اسلامی ممالک کو ہمارا خیال آگیا اور وہ جوق در جوق پاکستان کی سرزمین پر اترنے لگے۔ میاں صاحب فرماتے ہیں کہ ہم بحرین یا سعودیہ فوج نہیں بھیج رہے۔ ممکن ہے یہ بات سچ ہو، لیکن اگر فوج بھیج بھی دی جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ سعودی و بحرینی فرمانروا جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ کرچکے۔ اب تو ملت اسلامیہ پاکستان کو ان دورہ جات کے اثرات جو فی الوقت سبز باغوں کی مانند لہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں، سے گزرنا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم تقریباً تیس سال قبل افغان جہاد کے موقع پر اسی قسم کے سرسبز باغات سے گزرے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس سبز باغ کے پھل کی شیرینی جو چند ایک دہنوں تک پہنچی، نے پوری پاکستانی قوم کا کلیجہ چھلنی کر دیا۔

سعودیہ اور بحرین خلیج کے دو اہم ممالک ہیں۔ اس وقت خلیج فارس میں عالم اسلام کے اقتدار کی جنگ جاری ہے، جس میں یہ دونوں ممالک قریبی اتحادی ہیں۔ بحرین میں اس وقت ایک عوامی تحریک چل رہی ہے جو 2011ء سے جاری ہے۔ اس عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے تقریباً ہر قسم کا ہتھکنڈہ اور حربہ استعمال کیا جاچکا ہے، تاہم بحرین کے عوام کسی بھی صورت اپنی تحریک کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا بنیادی موقف یہی ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی سے بیرونی مداخلت کو ختم کیا جائے۔ یاد رہے کہ بحرین امریکا کے سب سے بڑے فلیٹ جسے ففتھ فلیٹ کہا جاتا ہے، کا مرکز ہے۔ اسی طرح بحرین کے عوام حماد الخلیفہ کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کو بحال کیا جائے۔ انھیں ملک کی فوج، عدلیہ اور سول اداروں میں ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ بحرین ایک چھوٹا سا ملک ہے، جس کی مقامی آبادی تقریباً چھ یا آٹھ لاکھ کے قریب ہے جبکہ اس ملک میں باہر سے لاکر بسائے گئے افراد کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ حماد الخلیفہ بیرون ملک سے لائے گئے ان اجرتی مزدوروں کے ذریعے ملک کے وسائل پر براجمان ہیں۔ بحرین کی فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی شہریوں پر مشتمل ہیں۔

جہاں تک سعودیہ کا سوال ہے، تو اسے اس وقت متعدد محاذوں کا سامنا ہے۔ اس میں سب سے اہم محاذ شام کا محاذ ہے۔ اس کے بعد قطر کو سعودیہ کے مقابلے میں ایک قوت کے طور پر سامنے لایا جارہا ہے۔ شام کے بارے ہونے والے عالمی سطح کے فیصلوں میں سعودی مرضیوں کو پس پشت ڈال کر فیصلے کیے گئے، جس کے سبب سعودی حکومت نے برملا ان فیصلوں کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا۔ قطر سے سعودی ناراضگیاں بھی اب کسی سے پنہاں نہیں ہیں۔ سعودیہ، عرب امارات اور بحرین نے گذشتہ ماہ قطر سے اپنے سفیروں کو واپس بلوا لیا اور ان ممالک کا موقف یہ تھا کہ قطر ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ شام کے معاملے پر ہونے والے جنیوا مذاکرات کے بعد سعودیہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے ایک دفعہ پھر اپنے مابین پائے جانے والے اختلافات کو کم کرنے کی کوشش
کی اور اس کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کی گئی۔ اس حکمت عملی کے تحت جو دو بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، وہ شام کے معاملے کے انچارج سعودی شہزادے بندر بن سلطان کا معزول ہونا اور دوسری بڑی تبدیلی شام میں لڑنے والی باغی فوج کے سربراہ سلیم ادریس کا معزول ہونا ہے۔

اس حکمت عملی کے تحت تیسری بڑی تبدیلی شامی حکومت کے حامیوں کو دیگر محاذوں پر مصروف کرنا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ روس کو یوکراین کے معاملے میں الجھایا گیا، اسی طرح ایران کی مشکلات میں مزید اضافہ کے ذریعے ان دونوں ممالک کو شام کے معاملے سے دور رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ سعودی اور بحرینی حکمرانوں کے حالیہ دورہ جات کو ہم اسی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان سے فوج ملے یا اسلحہ، ایک بات واضح ہے کہ ایران کسی بھی ایسی پیشرفت سے راضی نہیں ہوگا، جو اس کے مفادات کو براہ راست زک پہنچاتی ہو۔ ان دونوں ممالک سے فوجی تعاون کے معاہدوں کا واضح مطلب یہی ہے کہ پاکستان اس بلاک کا حصہ بن چکا ہے، جو شامی حکومت کے خلاف برسر پیکار ہے۔ یہ تعلق جہاں ایک طرف ہمیں دو برادر اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کے قریب لے جاتا ہے، وہیں یہ تعلق ہمیں کچھ برادر اسلامی ممالک کے عوام سے دور کرتا ہے، جن میں ایران، شام، لبنان، بحرین کے عوام قابل ذکر ہیں۔
 
 پاکستان کے سعودی بلاک میں چلے جانے سے ایران کمزور ہوتا ہے یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا، تاہم ایک بات بدیہی ہے کہ ایران کے تعلقات روس اور ہندوستان سے مزید بہتر ہوجائیں گے۔ اس صورتحال میں پاکستان اپنے ہمسایوں سے مزید دور ہوجائے گا اور مشرقی و مغربی سرحدوں کے بعد جنوب مغربی سرحد بھی ہمارے لیے غیر محفوظ ہوجائے گی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا جانے والا ہر فیصلہ وقتی مصلحتوں کے بجائے عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دور اندیشی سے قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔ اگرچہ اس کی توقع بہت کم ہے، تاہم بقول شاعر مشرق:
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button