Uncategorized

دیوبندی مدارس کی تنظیم وفاق المدارس نے سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور طالبان کی سرپرستی کا فیصلہ کرلیا

شیعہ نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) دیوبندی مدارس کی تنظیم وفاق المدارس نے ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم میں “ تحفظ مدارس دینیہ و امن کانفرنس ” کے نام سے ایک بھرپور قسم کا پاور شو کیا۔ یہ کانفرنس کرنے سے پہلے ملتان میں خیرالمدارس میں وفاق المدارس کا مرکزی اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں میں وفاق المدارس کے چیدہ چیدہ نمایاں لوگ موجود تھے اور اس اجلاس کے اندر یہ فیصلہ کیا گیا کہ دیوبندی مکتبہ فکر پر پورے ملک میں سے جو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے خلاف منظم مہم چلائی جائے اور اسے امیج بلڈنگ کی ایک کوشش بھی قرار دیا گیا لیکن وفاق المدارس کی اس میٹنگ میں ایک مرتبہ بھی اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ آخر پاکستان میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم دیوبندی مکتبہ فکر اور دہشت گردی کے باہمی تعلق اور رشتے کو زیر بحث کیوں لایا جارہا ہے ؟اور دہشت گردی کی جڑیں دیوبند مدارس اور تنظیموں سے کیوں جوڑی جارہی ہیں؟

وفاق المدارس کی مرکزی قیادت اور دیوبندی مولویوں کی جملہ اکثریت نے مذکورہ بالا مہم کی حقیقی وجوہات پر غور و فکر کرنے کی بجائے سازشی مفروضوں کو عین حقیقت قرار دیکر ان کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کرلیا ، سب کو معلوم ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر پر عمومی تنقید کی وجہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندرتکفیری دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کا پھیلاؤ ہے اور اس نیٹ ورک کا سلفی تکفیری نیٹ ورک کے ساتھ ملکر عالمی دہشت گرد نیٹ ورک کی تشکیل ہے، جس نے مڈل ایسٹ میں عراق، شام، لبنان کے اندر دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے، تو ایسا ہی کردار افریقہ میں صومالیہ،الجزائر، لیبیا، صومالیہ ،ٹمبکٹو جبکہ مشرق بعید میں ملائيشیا،انڈویشیا وغیرہ میں اور جنوبی ایشیا میں ایران،افغانستان،بنگلہ دیش اور پاکستان میں اپنایا ہوا ہے۔

یہ تنقید اس لیے بھی زیادہ ہوئی ہے کہ دیوبندی مدارس کی تنظیم وفاق المدارس نے دیوبندی کلنگ مشین کے بنیادی ستون جن میں اہل سنت والجماعت سرفہرست ہے اور دیوبندی تحریک طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے زیر اثر چلنے والے مدارس کو پورا پورا تحفظ فراہم کیا ہوا ہے اور اپنے مدارس و مساجد کے دروازے ان تحریکوں کی شیعہ،اہل سنت بریلوی ، عیسائی، ہندؤ اور احمدی مخالف تحریکوں اور تنظیموں کے لیے کھول رکھے ہیں اور کسی بھی موقع پر ان سے اظہار نفرت یا ان سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ دیوبندی وفاق المدارس ،دیوبندی سیاسی و  مذہبی تنظیموں نے دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کی دہشت گردی کا نام لیکر مذمت نہیں کی بلکہ ان کے استاد اور گرو ہونے اور ان دہشت گردوں کے شاگرد ہونے کے تذکرے فخر سے کئے جاتے رہے ہیں۔

یہ بات اب کھلا راز بن چکی ہے کہ کراچی کا جامعہ بنوریہ جہاں طالبان اور اہل سنت والجماعت کی بڑی پناہ گاہ ہے، وہیں دار العلوم کبیروالہ بھی ان دہشت گردوں کی نظریاتی فکری تربیت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور جامعہ فاروقیہ کراچی جس کا انتظام و انصرام وفاق المدارس کے صدر مولوی سلیم اللہ خان کے پاس ہے بھی دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ مولوی سلیم اللہ خان،قاری حنیف جالندھری، مفتی تقی عثمانی ، مفتی رفیع عثمانی ، مولوی سمیع الحق، مولوی فضل الرحمان سمیت دیوبندی مولویوں کی فرنٹ لائن دیوبندی تکفیری دہشت گرد نیٹ ورک کے بارے میں جو رویہ اپنائے ہوئے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے ایسا نہیں ہے جس کو دیکھ کر یہ کہا جائے کہ وہ اس دہشت گرد نیٹ ورک کی تکفیری خارجی آئیڈیالوجی سے کوئی اختلاف رکھتے ہیں۔

یہ سب کہتے ہیں کہ طالبان کا نفاز شریعت کا مطالبہ ٹھیک ہے جبکہ ان کو بخوبی علم ہے کہ طالبان جب نفاذ شریعت کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد تکفیری خارجی آئیڈیالوجی کا نفاذ ہوتا ہے جس کی شیعہ،بریلوی مخالف بنیادیں ظاہر وباہر ہیں ،یہ ویسی ہی ریاست کے قیام کا مطالبہ ہے جس طرح کی ریاست القائدہ،اسلامی سٹیٹ آف عراق،اسلامک فرنٹ اور دیگر سلفی تکفیری گروپ عراق،لبنان،شام وغیرہ میں کررہے ہیں ،یہ بظاہر ہتھیار اٹھانے کو غیر شرعی کہتے ہیں لیکن دیوبندی دہشت گرد تنظیموں سے ہتھیار ڈال دینے اور مسلح جدوجہد ترک کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کرتے اور دیوبندی مکتبہ فکر مین جو کھلے عام خود کو طالبان،لشکر جھنگوی کے ایجنڈے سے متفق بتلاتے ہیں ان کے دیوبندی مسلک سے خارج ہونے کا فتوی بھی نہیں دیتے۔

یہی وجہ ہے کہ ملتان میں وفاق المدارس نے جو پاور شو کیا اس میں کالعدم  اہل سنت والجماعت کی فرقہ پرست،دہشت گرد قیادت کو وی آئی پی پروٹوکول ملا اور اس جماعت کے سربراہ کا خطاب دھڑلے سے رکھا گیا اور یہ جماعت جلسے میں ریلی کی شکل میں آئی تو زبردست گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا گیا۔ گویا وفاق المدارس کی قیادت نے پاکستان اور دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ دیوبندی مکتبہ فکر اپنے اندر سے اٹھنے والے تکفیری خارجی دہشت گرد لہروں اور ان کے حامیوں کو اجنبی خیال نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے الگ ہونے کا تاثر دینے کو تیار ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button