مضامین

قبلہ اول خطرے میں! مسلم امہ کہاں ہے؟ (حصہ اول)

تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)

 

امت مسلمہ کہ جسے یہ افتخار حاصل رہا ہے کہ طاغوتی نظاموں کے سامنے سینہ سپر رہی اور ہر دور کے شیاطین کے ساتھ مبارزہ آرائی میں مصروف عمل رہی ہے، لیکن گذشتہ چند دہائیوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلم امہ شاید اپنا یہ امتیاز اور افتخار رفتہ رفتہ کھوتی چلی جا رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ شاید دین اسلام کے سنہرے اصولوں سے دوری بھی ہے اور آپس کی چپقلش نے بھی امت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں ہم اپنے راستے سے انحراف کرتے چلے جا رہے ہیں اور کیوں اپنا افتخار اور اعزاز دشمن کے قدموں میں نچھاور کر رہے ہیں، کیا ہمارے ذاتی اختلافات یا پھر فروعی اختلافات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں امت کے اجتماعی مسائل اور اجتماعی مفادات کے تحفظ کی پرواہ ہی نہیں رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام اور قبلہ اول بیت المقدس تاحال صیہونی شکنجہ میں ہے اور مسلم امہ خواب غفلت کی نیند میں ہے یا پھر اپنے معمولی نوعیت کے اختلافات میں مصروف عمل ہے۔ پورے کا پورا مشرق وسطٰی آگ میں جل رہا ہے اور کوئی بھی ایسی مسلم حکومت موجود نہیں ہے کہ جو ان حالات میں امت کے اصل مسائل کی طرف توجہ دلائے، البتہ ایک آدھ مسلم ریاست مسئلہ فلسطین جیسے بنیادی معاملے کی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش میں مصروف ہے تاہم یہ کوششیں بھی کافی نہیں ہیں، بہرحال حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور دنیا کا نقشہ بھی شاید تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور ان سب میں آخرکار مسلم حکومتوں کا بھی کردار موجود ہے۔

مثال کے طور پر مصر میں اسلامی جماعت کی کامیابی کو ختم کرنے کے لئے ایک اسلامی عرب ریاست نے فنڈنگ کی اور یہ بھی نہ سوچا کہ مصر کی اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے کا نقصان براہ راست جہاں امت مسلمہ کو پہنچے گا وہاں فلسطین کے معاملے کو بھی شدید زک پہنچے گی، دوسری طرف شام ہے کہ جہاں کی حکومت نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے اور فلسطینی جماعتوں کو نہ صرف مالی بلکہ مسلح مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شام میں دفاتر اور دیگر مراعات عنایت کی تھیں، آج امریکہ اور اسرائیل سمیت ہمارے ہی چند مسلم عرب حکمران اس کوشش میں مصروف ہیں کہ شام کی وہ حکومت کہ جو اسرائیل مخالف اور فلسطین کاز کی حامی ہے اسے ہٹا دیا جائے اور اس کام کو پورا کرنے کے لئے مسلح دہشت گرد گروہوں کو مالی اور مسلح مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے جس کے ثبوت آج پوری دنیا کے سامنے ہیں کہ شام کے معاملے میں مسلم عرب حکمرانوں کا کردار کیا ہے؟ بحرین کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جہاں پر عرب حکمران اپنی بادشاہتوں کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ہی وطن کے بےگناہ عوام کے قاتل بنے ہوئے ہیں۔ لبنان میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ لبنانی فوج کو کمزور کرنے کے لئے دہشت گردانہ حملوں کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ لبنان کی سیاسی و مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے مجاہدین کو بھی کہیں ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہیں بم دھماکوں کے ذریعے پوری پوری آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس سب کام میں جہاں عالمی استعماری قوتیں امریکہ، اسرائیل اور یورپ میں ملوث ہیں وہاں ہمارے یہ مسلم عرب حکمران جو اپنے ذاتی فوائد اور ذاتی اختلافات کی بنیاد پر برابر کے شریک کار ہیں۔

پاکستان کے حالات ہمارے سامنے ہی ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دہشت گردی عروج پر ہے، حتٰی ہماری حکومت بھی ان کے سامنے بےبس ہو گئی ہے، پاکستان سے کچھ عرب مسلم حکمران دوسرے عرب ممالک میں فوجیں بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں، پاکستانی اسلحہ بھیجنے کی بات کی جاتی ہے تاکہ کل کو اگر شام میں یا کسی اور مقام پر بین الاقوامی نگرانی کے ماہرین پہنچیں تو وہ یہ کہہ سکیں کہ اس ملک میں خانہ جنگی میں استعمال ہونے والا اسلحہ پاکستان سے آیا تھا، لوگ پاکستان سے آئے تھے، پاکستان کے خلاف یہ گہری سازش رچانے والا عالمی استکبار امریکہ اور اسرائیل ہے لیکن ان دونوں کے ساتھ ساتھ کچھ عرب نادان مسلم حکمران بھی ہیں جو اس مجرمانہ فعل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یمن، لیبیا، افریقائی ریاستوں سمیت تیونس اور دیگر مسلم ریاستیں سب کے سب پریشانی کا شکار ہیں، اور ان سب کی پریشانی میں عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل براہ راست ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے مسلم عرب حکمران بھی ملوث ہیں۔

یہاں ایک واضح سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان تمام ممالک میں عدم استحکام اور مسائل کی اصل وجہ کیا ہے؟ میرے خیال سے ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت دنیا کی تمام ایسی مسلم ریاستوں کو عدم استحکام کا شکار کیا جا رہا ہے کہ جو کسی بھی وقت اور کبھی بھی مسلم دنیا کے اہم ترین مسائل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور پورے خطے میں بگڑتی ہوئی صورتحال میں اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ فلسطین اور القدس ہے کہ جسے پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مسلم امہ کو اندرونی اختلافات اور مسائل میں الجھا کر انہیں اس بات پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اندرونی مسائل میں الجھے رہیں اور امریکی سازش کے تحت فرقہ واریت اور دیگر خطرناک مسائل میں پریشان رہیں اور مسئلہ فلسطین کے حل میں کوئی کردار ادا نہ کر سکیں۔ دوسری جانب برطانوی سامراج اور امریکی استکبار کے اعلٰی حکام صیہونی غاصب ریاست اس
رائیل کے دورے کرتے پھرتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد صدر محمود عباس کو بھی امریکہ دعوت کی جاتی ہے اور ہر طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح فلسطین کے عوام اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کر لیں اور اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائیں۔

خیر سوال ہے مسلم امہ کے تیسرے مقدس مقام بیت المقدس قبلہ اول کا کہ جو گذشتہ پینسٹھ برسوں سے صیہونی شکنجہ میں ہے اور آئے روز صیہونیوں کے حملوں کا نشانہ بھی بن رہا ہے تو کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ مسلم امہ اب بھی بیدار ہو جائے اور امریکی اور اسرائیلی سازشوں کے چنگل سے نکل کر امت کو یک جان بنانے کا کام کرے، کیا وہ عرب حکمران جو امریکی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں، مسلم امہ کے مفادات اور مقدسات کے تحفظ کے لئے ایک میز پر نہیں بیٹھ سکتے؟ یا پھر شاید بیٹھنا ہی نہیں چاہتے، قبلہ اول کی پکار آج بھی گونج رہی ہے کہ کیا ہے کوئی جو ماضی کے نامور مسلم مجاہد قائدین کی طرح آج بھی قبلہ اول کی آزادی کے لئے جدوجہد کرے۔ سوال پھر وہی ہے کہ قبلہ اول خطرے میں ہے اور مسلم امہ کہاں ہے؟ مسلم امہ اپنے فروعی اور ذاتی مسائل میں الجھی ہوئی ہے یا پھر امریکہ نے ان کو ایسے مسائل میں الجھا دیا ہے اور خود فلسطین کے نام نہاد صدر محمود عباس کے ساتھ مل کر فلسطین کا سودا کرنے میں مصروف عمل ہے۔
جاری ہے۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button