سراج الحق کا انتخاب اور جماعت اسلامی کے اندر نرم انقلاب
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کا حال کچھ ایسا ہی ہو گیا تھا جیسا نہایت ضعیف لوگوں کا ہو جاتا ہے جنھیں یہ نہیں پتا چلتا کہ انکے منہ سے کیا نکل رہا ہے اور انکے کہے الفاظ کا مطلب کیا ہے۔ ایسے بزرگان جب بات کرنا شروع کرتے ہیں تو تو لوگ اس فکر میں ہوتے ہیں کہ اب پتا نہیں کیا بول دیں اور خاندان والے اکثر بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا حال بھی اسی خاندان کی طرح ہو گیا تھا، جیسے ہی منور صاحب بات کرنا شروع کرتے انکے آس پاس کھڑے جماعت کے لوگوں کے منہ پر ہوائیں اڑنا شروع ہو جاتی تھیں۔ کبھی کبھی تو شک ہوا کہ کچھ حاضرین منہ ہی منہ میں کچھ بد بدا بھی رہے ہیں اور آنکھیں بار بار آسمان کی جانب التجائیہ انداز میں اٹھ رہی ہیں.
ایسے حالت اس وجہ سے ہوا کرتے تھے کہ حضرت جس محفل میں بھی پہنچتے، وہاں کوئی نہ کوئی ایسی بات کر آتے جس سے میڈیا کو اگلے ہفتوں کا مسالحہ مل جاتا۔لیکن جب سے ملک میں طالبان کے ساتھ مزاکرات کے ذریعہ امن کی بحالی کا لالی پاپ بکنا شروع ہوا تب سے ہی حضرت کے دل میں اس پیار و محبت نے انگڑائی لی جو جماعت اسلامی کا خاصہ نہیں تھی۔ جماعت ہمیشہ سے دونوں اطراف کو خوش رکھتی تھی، مذہبی موقف بھی ہوتا تھا اور حسب ضرورت ضیاء الحق و پرویز مشرف کی مٹھی چاپی بھی ہوتی رہتی تھی۔ 17 آئینی ترمیم کو منظور کروانے میں انکا کردار کسے نہیں بھولا جس کی بنا پر جنرل مشرف کے بد نام زمانہ LFO کو آئینی چھتری مل گئی تھی۔لیکن جب سے منور حسن صاحب نے جماعت کی امارت سنبھالی تھی تب سے ہی یہ محسوس ہو رہا تھا کہ منور حسن صاحب قاضی حسین احمد کی پالیسیوں سے الگ سوچ رکھتے ہیں۔پھر مزاکرات کی دھول اڑی تو جماعت کی قیادت کے بیانات نے پاکستان میں نت نئی بحثوں کو چھیڑ دیا۔
جب حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارے گئے تو انھیں تمغہ شہادت بھی موصوف نے ہی عطا کیا اور یہ منور حسن صاحب ہی تھے جنکی شہید اور غیر شہید فوجیوں والی بحث نے ملک میں تنازعات کا ایک نیا طوفان کھڑا کر دیا۔ حتیٰ کہ پاکستان آرمی کی جانب سے ایک غیر معمولی پریس ریلیز جاری ہوا جس میں ان سے انکے بیان پر معافی کا مطالبہ کیا گیا ۔پھر ابھی گزشتہ دنوں حضرت نے طالبان کو ‘بھائی’ قرار دے ڈالا! مطلب یہ کہ طالبان کے حوالے سے حضرت کے بیانات جماعت اسلامی کی قیادت کی سوچ میں طالبان طرز کی انتہا پسندی کے رجحانات کا پتا دے رہے تھے۔ ایسے میں جب جماعت اسلامی کے نئے امیر کا انتخاب ہوا تو خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ جناب سراج الحق صاحب، منور حسن اور لیاقت بلوچ کو شکست دے کر نئے امیر بن گئے۔جماعت اسلامی میں لیاقت بلوچ اور منور حسن کی شکست کو ایک نرم انقلاب کہا جائے تو برا نہ ہو گا کیوں کہ جماعت کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے جب ایک امیر کو دوبارہ منتخب نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف سراج صاحب کو قاضی حسین احمد کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور انکا انتخاب اس بات کا بھی عندیہ ہو سکتا ہے کہ جماعت اسلامی منور حسن کی انتہا پسندانہ سوچ سے کنی کترا کر قاضی حسین احمد کی لچک والی سیاست کا رخ کرنا چاہتی ہے۔ سراج الحق صاحب اس سے پہلے بھی خیبر پختونخواہ کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور انھیں سیاست کا کافی تجربہ ہے۔ ابھی بھی اور اس سے پہلے بھی سراج صاحب اتحادی حکومتوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں جس سے انکی سیاست میں لچک کا پتا چلتا ہے۔ سراج صاحب منور حسن سے مقابلتا کم عمر بھی ہیں اور لگتا یہی ہے کہ یہ قاضی حسین احمد کی ہی طرح اس عہدے پر لمبے عرصے تک فائض رہیں گے۔ امید تو یہی ہے کہ جماعت اسلامی منور حسن کی متنازعہ سوچ سے پیچھے ہٹ کر پاکستان میں جو جمہوریت کا ننھا پودا اپنی دوسری بہار دیکھ رہا ہے اسکے استحکام میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ سراج صاحب دو حکومتیں بھگتا کر امارت سنبھال رہے ہیں، یہ سیاسی تجربہ اور قاضی حسین احمد کی تربیت نے یقیناً ان کی سوچ پر اپنا کردار ادا کیا ہو گا۔