پاکستان میں شیعہ سنی تصادم کا منصوبہ، ضیائی دور واپس آ رہا ہے؟
تحریر: تصور حسین شہزاد
معروف انگریزی اخبار ڈان کے خصوصی نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے تحریک طالبان کے ترجمان نے ایسے خطرناک انکشاف کئے ہیں جن سے ہر صاحب فکر پریشان ہو کر رہ گیا ہے۔ دہشت گرد رہنما کا کہنا ہے کہ ’’ان کے جہاد کے مقصد اور منزل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہمارے جہاد کا فیصلہ کن مرحلہ اس وقت آئے گا جب ہمارا مقابلہ پاکستان میں اہل تشیع کے ساتھ شروع ہو گا۔ دہشتگردوں کے لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ جہاد کے اس مرحلے پر ہم پیش قدمی کرتے ہوئے شام سے واپس عراق، ایران اور پھر شام پہنچیں گے۔ دہشت گردوں کے ان اہداف کو دیکھتے ہوئے ہر ذی شعور کو پاکستان کی مستقبل میں ایک بھیانک تصویر دکھائی دے رہی ہے اور اس مقصد کے لئے اس ’’زمانہ امن‘‘ دہشت گرد بھرپور تیاری کر رہے ہیں‘‘۔ سعودی عرب سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے ساتھ جنگ بندی کر دے اور دہشت گرد پاکستان کے محاذ سے ہٹ کر شام میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ پاکستانی دہشت گردوں کی شام میں مداخلت اور لاشوں کی واپسی آن ریکارڈ ہے۔ اس کے باوجود ہمارے حکمران عوام کو گمراہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ نواز لیگ کا ہر لیڈر عوام کو یہی کہتا پھر رہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی یہ امداد غیر مشروط تحفہ ہے جبکہ عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کراچی کے ایک اخبار میں یہ ’’بریکنگ سٹوری‘‘ چلائی گئی کہ سعودی شاہی خاندان کی بقا کو خطرہ تھا جس کا علم پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو ہو گیا اور اب سعودی شاہی خاندان نے اپنی سلطنت بچانے کیلئے پاکستان کی خدمات حاصل کی ہیں جس کا معاوضہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ اس سٹوری کو مزید چٹ پٹا بنانے کے لئے اس میں امریکی سازشوں کی آمیزش بھی ڈال دی گئی کہ آل سعود کے خلاف یہ سازش امریکہ کر رہا ہے۔ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اپنے پالتوؤں کے خلاف فوری کارروائی نہیں کرتا اور چھپ کر بھی نہیں کرتا۔
شام میں پچھلے تین سال سے پاکستانی دہشت گرد برسرپیکار ہیں۔ اور شام میں پولیو کا کیس سامنے آنے پر بھی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ وائرس پاکستانی مجاہدین کے ذریعے شام پہنچا ہے، سعودی عرب اور بحرین شام میں مداخلت کے لئے تیزرفتار رابطوں میں ہیں۔ امریکہ اور روس کے مابین ایک سرد جنگ جاری ہے۔ یہ دونوں ملک اپنے محاذ پر نہیں لڑتے بلکہ ہمیشہ انہوں نے دوسروں کے کندھوں پر بندوق چلائی ہے۔ یہ دونوں شیطان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی نے نعرہ بلند کیا تھا کہ روس نہ امریکہ ، سپر پاور ہے خدا، اور آج امام خمینی کی دوراندیشی ثابت ہو رہی ہے۔ آج یہ دونوں شیطان بے نقاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا ہے۔ اور آج پھر مسلمانوں کی صفوں میں فرقہ واریت کی جنگ کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ اس کی فصل جہاں عرب ملکوں میں کاشت کی گئی ہے وہاں پاکستان کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا اور پاکستان میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا منصوبہ بن چکا ہے جس کے لئے موجودہ حکمرانوں کو خاص منصوبہ بندی کے تحت اقتدار میں لایا گیا ہے۔
نواز لیگ کے پہلے دور حکومت میں اہل تشیع کی سب سے زیادہ نسل کشی کی گئی۔ ایک ایک واقعہ میں 20, 20 اہل تشیع کو شہید کیا گیا۔ اہل سرکاری شیعہ افسروں کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینئرز، بیوروکریٹس، سائنسدان شہید کئے گئے۔ اور اب طالبان لیڈر نے جس طرف اشارہ کیا ہے اس سے صورت حال مزید بھیانک دکھائی دے رہی ہے۔ شیعہ نسل کشی کا باقاعدہ آغاز ضیا دور میں ہوا تھا یہ وہ دور تھا جب موجودہ وزیراعظم نواز شریف آمر ضیاالحق کی گود میں سیاسی داؤ پیج سیکھ رہے تھے اور انہیں ضیا الحق کا سیاسی فرزند بھی کہا جاتا ہے۔ ضیا میں دور فوج سمیت ہر ادارے میں شہریوں کی مسلک کی بنیاد پر خفیہ چھان بین کرائی جاتی رہی اور بدقسمتی سے شیعہ دشمن تنظیموں کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی فراہم کی گئی اور انہیں دہشت گردی کی تربیت بھی سرکاری سطح پر دی جاتی اور یہ سارا گھناؤنا کھیل کشمیر اور افغانستان کے جہاد کے نام پر کھیلا گیا۔ افغان جنگ میں صرف انتہاپسند وہابی مسلک کے افراد کو ہی شامل کیا جاتا تھا اور انہیں پھر پاکستان واپس بلا کر اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری سونپ دی جاتی۔
اس وقت پاکستان میں شیعہ اور سنی متحد ہیں۔ تکفیری گروہ الگ اور بے نقاب ہو چکا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ ریاست ہے، اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اہل تشیع کو بھی بیداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اس وقت اہل تشیع مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں، علامہ ساجد علی نقوی صاحب بھی قائد ملت ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس ناصر ملت ہیں، علامہ سید جواد نقوی نے اپنا الگ حلقہ بنا لیا ہے، وہ ان دونوں سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ مدارس کے شیعہ علما اپنا الگ تشخص بنائے بیٹھے ہیں۔ ایسی صورت حال میں دشمن کے لئے آسانی ہے کہ وہ الگ الگ اور بکھرے ہوؤں کو آسانی سے شکار کر سکتا ہے، ملت جعفریہ اگر پاکستان میں اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے ان حصاروں کو توڑ کر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہو گا اگر مجلس وحدت اور سنی اتحاد کونسل میں اتحاد ہو سکتا ہے تو شیعہ علما کونسل اور دیگر شیعہ عمائدین اور تنظیموں کیساتھ بھی اتحاد کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اس حوالے سے علامہ ساجد علی نقوی صاحب کو بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور جنازے پڑھانے والے لیڈر کا لیبل اتارنا ہو گا۔
سنی اتحاد کو
نسل کی قیادت نے بیدار مغزی کا مظاہرہ کر کے دہشت گردوں کے خلاف اہل تشیع کیساتھ اتحاد کیا ہے۔ اس اتحاد کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور دہشت گردوں کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ دہشت گرد اہل تشیع اور اہل سنت دونوں کے مخالف ہیں۔ ان دہشت گردوں کی نظر میں مزارات، امام بارگاہوں اور مساجد پر حملے جائز ہیں۔ ان دہشت گردوں کے مطابق کھوپڑیوں کے مینار بنانا اور ان سے فٹ بال کھیلنا ’’احسن مشاغل ‘‘ ہیں۔ ان دہشت گردوں میں انسانیت ہے نہ اسلامیت، یہ درندے ہیں اور دندوں کیساتھ ان جیسا ہی سلوک کیا جائے تو ان کا شافی علاج ہوتا ہے۔ اس حوالے سے شیعہ اور سنی متحد ہیں اور دعا ہے کہ خدا اس اتحاد کو سلامت رکھے اور ایک چیز اہمیت کی حامل ہے کہ جو لوگ سنی نہیں لیکن انہوں نے اہل سنت کو دنیا میں بدنام کرنے کے لئے اپنے نام اہل سنت والجماعت جیسے رکھے ہوئے ہیں، سنیوں کو ان کا بھی سدباب کرنا چاہیے۔ سنی رہنماؤں کی جانب سے گزشتہ دنوں میں یہ بیانات جاری ہوئے تھے کہ ہم اس نام کے خلاف عدالت جائیں گے لیکن یہ بات صرف بیانات تک ہی محدور رہی، عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے بھی سنی اتحاد کونسل کی قیادت کو قدم اٹھانا چاہیے اور دہشت گردوں کو بے نقاب کرنا چاہیے۔
ملک میں قیام امن اور باہمی یکجہتی کے حوالے سے ہر فرد کو اجتماعی کےساتھ انفرادی طور پر بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جہاں یہ ملت کے عمائدین کی ذمہ داری ہے وہاں ملک کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں، دانشوروں اور مفکرین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے کردار ادا کریں۔ نواز لیگ میں موجود شیعہ سیاست دانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں خون خرابہ کے واقعات کا قبل از وقت ہی تدارک کرنے کے لئے کردار ادا کریں اور اپنی قیادت کو مجبور کریں کہ وہ اپنے ملک کو غیروں کی خوشنودی کیلئے خون رنگ نہ کریں۔ دنیا کے مسلمان سعودی عرب کا حرمین شریفین کی وجہ سے احترام کرتے ہیں۔ اگر سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ نہ ہوتے تو یہ عرب بدو پوری دنیا میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہوتے، اور ان مقدسات کی وجہ سے اگر ان کی دنیا میں عزت ہے تو انہیں اس کا پاس کرنا چاہیئے نہ کہ اس کی آڑ میں امریکی مفادات کے لئے اپنے ہی مسلمانوں بھائیوں کی قتل وغارت شروع کروا دینی چاہیے۔