راہِ حق کے راہی ۔۔۔۔۔۔ دو شہید
تحریر: علی ناصر الحسینی
آیت اللہ مہدی الحکیم عراق سے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے اس دورہ میں انہوں نے لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں استقبالیہ تقریبات سے گفتگو کی تھی لاہو رمیں بھی ان کے اعزاز میں پروگرام تشکیل دیا گیا تھا جس میں امامیہ نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ یہ 2مئی1986ء کا دن تھا جب لاہور میں ان کے اعزاز مین تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا ۔انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور آئی ایس او کا اہم اور بنیادی یونٹ تھا جہا ں کے کئی ایک برادران اس خطاب کو سننے کیلئے گئے تھے، سرگودھا سے آئے مہمان را جہ اقبال حسین کے پاس پہنچے تھے۔راجہ اقبال حسین فطرطاً مہمان پسند اور ملنسار طبیعت کے مالک نوجوان تھے اور یونیورسٹی کے دوستوں کو بھی ان کی اس خوبی کا اعتراف تھا۔اگلے روز ان کاپیپر تھا اس کے باوجود وہ مہمانان کو بھرپور وقت دے رہے تھے۔ ملک کی ایک بڑی درسگاہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے قاسم ہال کمرہ نمبر97میں رات کے کھانے کیلئے یہ تمام لوگ جمع تھے ۔جمع ہونے والے امامیہ برادران جن میں راجہ اقبال حسین ان کے مہمان تنصیر حیدر یونیورسٹی میں سال آخر کے طالبعلم سید تصور حسین ، ایک اور ساتھی ابوالحسن شیرازی بھی شامل تھے یہ لوگ آیت اللہ مہدی الحکیم کی تقریر سننے کے بعد مرکزی دفتر سے ہو کرکمرے میں واپس آئے تھے، ابھی کھانا شروع نہیں ہوا تھا کہ کسی نے ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی کوئی چیز کمرے کے اندر پھینکی، جیسے ہی وہ چیز گری زوردار دھماکہ ہوگیا ۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ کمرے کی مضبوط چھت اور دیواریں جو کنکریٹ کی موٹی تہہ سے بنائی گئی تھیں تباہ ہوگئیں۔ دھماکے سے کمرے کا دروازہ اُڑ کر سامنے والے کمرے کی دیوار سے جا ٹکرایا اور اس کمرے کے شیشے بھی ٹوٹ گئے ۔ موقعہ پر دو برادران راجہ اقبال حسین (سول)سابق جائنٹ سیکرٹری اور سید تنصیر حیدر سابق ڈویژنل صدر سرگودھا مقام شہادت سے سرفراز ہوگئے، جبکہ سید تصور نقوی (مرکزی جنرل سیکرٹری) سال آخر سول اور سید ابوالحسن شیرازی جوہرآباد یونٹ شدید زخمی ہوگئے۔
دھماکے کی خبر شہر کے تمام مومنین تک پہنچ گئی، ضروری کارروائی کے بعد شہداء کو غسل و کفن کے بعد صبح9بجے انجینئرنگ یونیورسٹی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کے آبائی علاقوں بھلوال،سرگودھا میں روانہ کردیا گیا ۔بہت سے تنظیمی دوست و احباب بھی میت کے ہمراہ گئے اور اس دلخراش سانحہ پر خانوادگان شہداء سے اظہار ہمدردی کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ شہداء کی راہ کو جاری رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اس موقع پر تمام زخمی دل احباب کو ڈھارس بندھائی اور تمام مراحل میں ساتھ رہے۔ کہتے ہیں کہ ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ دوستوں کو حوصلہ ملا اور آگے بڑھے۔اس موقعہ پر امامیہ برادران نے امریکہ اور اس کے گماشتوں کے خلاف بھرپور نعرہ بازی بھی کی۔
اس سانحہ پر اس وقت کی انتظامیہ نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ۔ حکومت نے حقائق کو جھٹلانے کی مذموم کوشش کی انتظامیہ جان بوجھ کر کارروان امامیہ الزامات لگا رہے تھے اسلئے کہ یہ برادران کچھ ہی دنوں کے بعد 16مئی کو یوم مردہ باد امریکہ منانے جا رہے تھے ،تاکہ پاکستانی قوم کو امریکہ کی اسلام دشمن پالیسیوں اور سرپرستی کے نتیجہ میں فلسطین کے مسلمانوں پر بد ترین مظالم اور گھروں سے بے دخلی بارے حقائق سے آگاہ کر سکیں،امریکہ ایجنٹوں نے یہ کارروائی کی تھی اور افغانستان میں روس کے خلاف جاری سی آئی اے کے جہاد کے بعد ملت تشیع کے خلاف جاری سازشوں کا حصہ تھا ۔ جس کمرے میں دھماکہ ہوا وہ راجہ اقبال حسین کا تھا۔ اگلے روز 3مئی کو ان کا پیپر تھا ۔ وہ سارا دن پیپر کی تیاری میں مصروف رہے اور کئی طلباء ان کے کمرے میں بھی آ گئے، دیگر برادران آیت اللہ مہدی الحکیم کا خطاب سننے کے بعد تنظیمی دفتر گئے اور پھر یونیورسٹی پہنچے جن میں راجہ اقبال کے مہمان بھی تھے۔ابھی کھانے کا پروگرام بنایا ہی تھا اور جوس شاپ پر فروٹ جوس کا آرڈر بھی دیا تھا کہ دھماکہ ہوگیا۔انتظامیہ کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جس دھماکے سے پورا کمرہ جل کر خاکستر ہو گیا اس کے اندر سے ایک دن کے بعد پولیس کو کچھ دھماکہ خیز مواد مل گیا۔بقول شاعر
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا ہے
یونیورسٹی میں کچھ متعصب اور فرقہ پرست غیر ملکی ایجنڈہ پر عمل پیرا حالات خراب کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف تھے ۔ اس سانحہ سے قبل اگست 84ء میں ہاسٹل میں قائم امامیہ مسجد زبیر ہال کو نذر آتش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں اہم دینی کتب، قرآن مجید اور احادیث کو نقصان پہنچا۔ جس کی شکایت یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو پہنچائی گئی تھی ۔ اسیطرح محرم الحرام میں کانووکیشن ہال میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں نواسۂ رسولؐ اور ان کے اصحاب پاک کی شان میں گستاخی کی گئی ۔ احادیث نبویؐ کا مذاق اڑایا گیا اور فرقہ واریت کو ہوادی گئی ۔ اس پروگرام کے کیسٹس بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو پہنچائے گئے تھے مگر کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔2مئی کا سانحہ بھی انہی فرقہ پرستوں کی سازش تھا اور اس کا الزام آئی ایس او پر لگانا حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف تھا۔
اس سانحہ میں تنظیم کے دو انتہائی اہم عہدیدار برادر راجہ اقبال حسین اور سید تنصیر حیدر جام شہادت نوش کرگئے تھے۔ شہید راجہ اقبال حسین کے دوستوں کا کہنا تھا کہ وہ بے حد اعلیٰ اخلاق کا مالک، ہنستا مسکراتا چہرہ،بہترین دوست
،ہمدم و مونس تھا۔ یونیورسٹی میں آنے والے کئی نئے دوستوں کو انہوں نے اپنے بلند اخلاق سے گرویدہ کرلیا تھا۔اپنے ہوں یا غیر سبھی ان کی عزت کرتے تھے اور ان کے بلند اخلاق سے متاثر و معترف تھے ۔ وہ علماء کرام سے ہمیشہ مربوط رہتے تھے اور دوستوں کو بھی ان کی نصیحت یہی ہوتی تھی کہ علماء سے مربوط رہیں ،اس لیے کہ یہ ہماری زندگیوں کا سرمایہ ہیں، دین کی معرفت حاصل کرنے کیلئے ان سے میل جول اور تعلق اشد ضروری ہے۔ وہ انتہائی پاکیزہ دل انسان تھے۔ نماز انتہائی خشوع و خضوع سے ادا کرتے ۔ اپنے ہدف سے یقین کی حد تک واضح تھے ،یہی وجہ تھی کہ کمزور بدن ہونے کے باوجود اپنی ہمت سے کہیں بڑھ کر کام کرتے تھے۔ راجہ صاحب ہمیشہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے، انہیں کبھی کسی نے غصہ میں نہیں دیکھا، حد درجہ کے مہمان نواز راجہ اقبال حسین شہید کے کمرے میں جب بھی کوئی جاتا تو کسی نہ کسی کو مہمان ضرور پاتا ،آخری وقت بھی مہمانوں کی خاطر مدارت میں مصروف تھے حالانکہ ان کا اگلے روز ہی پیپر تھا۔
اس سانحہ کے دوسرے شہید برادر تنصیر حیدر جو سرگودھا ڈویژن کے سابق صدر بھی تھے ،ہمیشہ خوشنودئ خدا کے حصول کیلئے کوشاں رہتے ۔ اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو اسلام کی خدمت میں وقف کرچکے تھے ۔ وہ دوستی و دشمنی بھی کرتے تھے تو اسلام کیلئے۔ انقلاب اسلامی ایران اور حضرت امام خمینیؒ کی ذات سے انہیں عشق تھا ، انقلاب کی شمع نے ان کے قلب و نظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ برادر سید تنصیر حیدر نے برادر امتیاز رضوی (سابق مرکزی صدر) کی فرمائش پر 4جنوری 1985ء کے دن کچھ کلمات تحریر کیے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کس قسم کی تھی۔ \” میرے عزیز ترین بھائی امتیاز، میری آپ کی ذات سے خواہش ہے کہ آپ اپنے آپ کو امام زمانہ ؑ کے مشن کیلئے وقف کرلیں ۔ امامیہ تنظٰم میں شمولیت کے بعد جب سے اپنے رہن سہن کو دیکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے سو نوجوانوں سے بہترہوں ،جب سے ایرانی انقلاب کے تھوڑا قریب ہوگیا ہوں تو یہ آرزو پیدا ہوئی کہ شہید ہوجاؤں۔ میں آپ سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ امام زمانہ ؑ کی راہ میں شہادت ضرور پائیے گا\”(سید تنصیر حیدر)
کیوں بھی لہو نے صورت اظہار پائی ہے
مقتل سے دل دھڑکنے کی آواز آئی ہے
یہ پہلے امامیہ شہدا ء تھے جن کی شہادت کے بعد ان کی یاد میں 2مئی کو تنظیمی طور پر ملک بھر میں یو مِ شہداا ء امامیہ منایا جانے لگا۔اب اس حوالے سے پورا ہفتہ شہدا ء منایا جاتا ہے۔