مضامین

تنظیم یا سامری کے بچھڑے؟

تحریر: عرفان علی 

مملکت خداداد پاکستان میں (ج ع و) جعو اسٹوڈیو نے ایک نیا ڈرامہ پیش کیا ہے۔ ’’سامری کے بچھڑے نامی‘‘ اس ڈرامے میں ’’تنظیم‘‘ نامی ولن کو اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے وہ انڈر ورلڈ کا ڈان ہو اور تحریک اور نہضت جیسی شریف رضیہ باجیاں تنظیم اور اسکی لے پالک حزب جیسے غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ اسکرپٹ میں دم خم نہیں ہے، اس لئے باکس آفس پر تو ہٹ ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ البتہ تصویری کے بجائے تحریری پرومو ’’تنظیم کی حیثیت پر ایک نگاہ‘‘ کے عنوان سے تین قسطوں میں سامنے آچکا ہے، گو کہ ہم شوبز کے صحافی تو نہیں، لیکن سامری کا بچھڑا سیاسی ڈرامہ ہے، اس لئے اس پر تبصرہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ کہاں سے شروع کروں؟ قرآن سے، اہلبیت علیہم السلام سے یا امام خمینی (رہ) سے۔ کیا قرآن میں موجود سورہ آل عمران کی آیت 104 کی بات کروں، جو یہ تقاضا کرتی ہے کہ تم میں ایک امت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔ تم خود امت نہیں جو اس میں ایک اور امت کی بات ہو رہی ہے۔ یہ لفظ آیت میں امت ہے اس کے اردو اور انگریزی ترجمے میں کسی نے بھی اسے امت نہیں لکھا۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی، علامہ صفدر حسین نجفی، فرمان علی صاحب اور علامہ شیخ محسن علی نجفی کے ترجمے پڑھئے۔ سنی بریلوی مولانا احمد رضا خان ہوں یا دیوبندی مولانا اشرف علی تھانوی و شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی، فتح محمد خان جالندھری ہوں یا شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، سب نے اس لفظ امت کا ترجمہ جماعت یا گروہ لکھا۔

انصاریان پبلیکیشنز کے شائع شدہ قرآن کے انگریزی ترجمے میں محمد حمید شاکر نے امت لفظ کا انگریزی ترجمہ پارٹی لکھا۔ دیوبندی ادارے کی شائع کردہ قاموس القرآن میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے استاذ تفسیر قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی نے لفظ امت کا ترجمہ جماعت لکھا۔ ہر اس جماعت کو امت کہتے ہیں جس میں کوئی مذہب یا وطن یا زمانہ مشترک ہو، گویا یہ مشترک چیز بمنزلہ ماں کے ہے اور جماعت بمنزلہ اولاد کے، کیونکہ لفظ امت ام سے نکلا ہے، جس کے معانی ہیں ماں۔ ایران کے استاد محی الدین مہدی الٰہی قمشہ ای اس آیت میں امت کے بارے میں کہتے ہیں و باید از شما مسلمان برخی کہ دانا و باتقویٰ ترند۔۔۔۔۔ یعنی سارے مسلمان نہیں بلکہ دانا تر و باتقویٰ تر مسلمان کو امت سمجھا جائے گا۔ شیعہ طلباء کے لئے ادارہ التنزیل پاکستان نے ترجمہ و مفاہیم قرآن تعلیمی نصاب جلد اول کے فہرست الفاظ و معانی میں امت کا ترجمہ گروہ لکھا ہے۔

پرومو کی تین قسطیں لکھنے والے محترم جناب حسن عسکری صاحب نے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کا ایک عربی جملہ لکھا ہے۔ طاعتنا نظاما للملۃ و امامتنا امانا من الفرق، اس میں عربی لفظ ملت آیا ہے، لیکن موصوف نے ترجمہ امت کر دیا ہے۔ امامت کو تفرقے سے امان کہا ہے، لیکن موصوف نے تنظیم بھائی اور حزب سے امان سمجھ لیا ہے۔ امام رضا کی حدیث نقل کی کہ امامت انبیاء کا مقام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء کی امت کو ملت، قوم، اہل، الناس، حزب، شیعہ، جیسے الفاظ سے یاد نہیں کیا گیا؟؟ امام جعفر صادق (ع) کی حدیث نقل کی گئی کہ ہمارے شیعوں کے علماء ان کی ہر قسم کی سرحدوں کے محافظ و مرابط ہیں۔

انہی علماء میں سے ایک کا نام امام خمینی ہے۔ موصوف نے چونکہ آیت اللہ جوادی آملی کا بھی حوالہ دیا ہے، اسی لئے انہی کے الفاظ پڑھئے، وہ فرماتے ہیں: امام خمینی کے سیاسی، ثقافتی اور عسکری مبارزات کے بارے میں عمیق تجزیہ و تحلیل اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ آپ نے آغاز سے انجام تک اپنے مولا حضرت امام حسین (ع) کی پیروی کی ہے۔ یہ بات مشہد مقدس میں 20 ذی الحجہ 1409 ھجری قمری میں کی گئی۔ (قرآن کا پیغام، آیت اللہ جوادی آملی ترجمہ سید ریاض صفوی)۔ امام خمینی نے ایران کے قانون اساسی کو ثمرہ عظیم قرار دیا تھا۔ قانون اساسی فارسی زبان میں ہے اور انگریزی ترجمہ بھی موجود ہے۔ فارسی متن میں اس ایرانی آئین کی فصل سوم کا عنوان حقوق ملت ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 26 (اصل بیست و ششم) غور سے پڑھئے۔ جمعیت ھا، انجمن ھای سیاسی و صنفی، و انجمن ھای اسلامی یا اقلیت ھای دینی شناختہ شدہ، انگریزی ترجمے میں انہیں پارٹی، سوسائٹی، سیاسی یا پیشہ وارانہ سوسائٹی، یا مذہبی سوسائٹی کہا گیا۔ بہت سارے افراد کی یکجائی ہی کو جمعیت، انجمن، حزب، دستہ، مجمع یا مجموعہ کہا جاتا ہے۔

یہاں ایک اور بات بھی بیان کر دوں کہ پاکستان کے آرٹیکل 17 اور ایرانی آئین کے آرٹیکل 26 میں مماثلت ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی، گروہ یا جماعت بنانا کسی بھی ملک کے عوام کے بنیادی حقوق میں شامل ہوتے ہیں۔ اب اس حقیقت کا کیا کہئے کہ جمعیت اور حزب بھی عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ حرکت، تحرک، تحریک اور نہضت بھی عربی الفاظ ہیں لیکن تحریک اور نہضت قرآن شریف میں نہیں پائے جاتے۔ امت کا ترجمہ جماعت اور حزب کا ترجمہ گروہ یا پارٹی کیا جاتا ہے۔ جس قانون اساسی کے تحت امام خمینی ایران کے قانونی ہیڈ آف اسٹیٹ یعنی ریاست ایران کے سربراہ بنے، اس کی تدوین کے بارے میں لکھا ہے کہ قانون اساسی جمہوری ایران، میراث ارزشمند امام خمینی قدس سرہ، و شخصیت ھای بزرگی مانند مرحوم آیت اللہ طالقانی قدس سرہ، و شہید بزرگوار آیت اللہ دکتر سید محمد حسینی بہشتی رحمت اللہ علیہ است۔ مجلس خبرگان کے سربراہ آیت اللہ منتظری تھے اور میرے آئیڈیل انسان بہشتی نائب سربراہ، لی
کن منتظری صاحب نے کہا از آقای دکتر بھشتی تقاضا کرتا ہوں کہ آج مجلس کا انتظام خود سنبھالیں۔

اب آیئے اور پڑھیں رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کے مشیر اعلٰی علی اکبر ولایتی کی کتاب اسلامی تہذیب و ثقافت کا دسواں باب اسلامی بیداری۔ اس میں لکھا ہے کہ ایران میں نہضت آزادی ایک مذہبی و سیاسی تنظیم تھی، جو 1340 ھجری شمسی میں آیت اللہ طالقانی، مہدی بازرگان و دیگر قوم پرست مذہبی لوگوں کی کوششوں سے وجود میں آئی۔ محمد علی رجائی بھی اس کے رکن تھے۔ آیت اللہ بہشتی، آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ جواد باہنر ان قائدین کے دوست تھے۔ اس نہضت آزادی نامی تنظیم کے بانیان میں سے ایک مہدی بازرگان کو امام خمینی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد ایران کا وزیراعظم (موقت) مقرر کیا۔ میرے آئیڈیل شہید بہشتی کی خود نوشت مختصر سوانح بھی موجود ہے۔ سازمان تبلیغات اسلامی نے ان کے پانچ لیکچرز کے انگریزی ترجمے کو ایک کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔ اس میں یہ موجود ہے۔ شہید قم میں گئے تو پہلے طلباء اور پھر علماء کی تنظیم بنائی۔ وہ ہمبرگ جرمنی گئے تو وہاں تنظیم قائم کی اور امریکہ اور یورپ میں طلباء کے درمیان مضبوط رابطہ قائم کیا۔ ایران میں حزب جمہوری اسلامی قائم کی۔ حتٰی کہ ان کی شہادت بھی اسی جماعت کے ہیڈکوارٹر میں ہوئی اور یہ ہفتم تیر کے 72 شہداء جنہیں ایرانی کربلا کے شہداء قرار دیا گیا، یہ سب حزب جمہوری اسلامی نامی پارٹی کے اجلاس میں شریک تھے۔ امام خمینی نے اس شہید بہشتی کو امت قرار دیا۔

تنظیم کی حیثیت کیا ہے، یقیناً سمجھ میں آگیا ہوگا۔ اولیائے خدا کی سیرت بھی سمجھ میں آگئی ہوگی۔ نہیں آئی تو سنیں: آیت اللہ نوراللہ اصفہانی نے بنائی اتحاد اسلامی اصفہان نامی تنظیم۔ امام خامنہ ای کے آئیڈیل شہید نواب صفوی نے بنائی فدائیان اسلام نام کی تنظیم، اس دور میں ایک اور تنظیم تھی جس کا نام تھا مجمع مسلمانان مجاہد۔ ان دونوں تنظیموں سے آیت اللہ کاشانی نے مدد لی تھی۔ حزب ملل اسلامی، موتلفہ اسلامی، توحیدی صف، فلق، فلاح، منصورین، موحدین، یہ سب تھے گروہ یعنی حزب۔ (ڈاکٹر ولایتی کی کتاب پڑھیں)۔ امام خمینی نے 1360 شمسی ہجری کو حاکمیت قانون کا سال قرار دیا تھا، اس وقت کہا تھا کہ ’’قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران است کہ وسیلہ نمائندگان محترم ملت ایران کہ اکثریت آنان از علماء اعلام و حجج اسلام و مطلعین بر احکام اسلام بودند، تھیہ و تصویب اکثریت ملت معظم رسید، امید است انشاء اللہ تعالٰی با عمل بہ آن، آرمان ھای اسلامی بر آوردہ شود و تا ظہور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا لہ الفدا) باقی و مورد عمل باشد۔‘‘

اسی ایرانی آئین کے ذریعے آرمان ہائے اسلام کا حصول ہوگا اور ان پر عمل ہوگا۔ جب یہ آئین جسے امام خامنہ ای ستون و بنیاد قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بنیاد و ستون کی مضبوطی سے ہی اک بزرگ و رفیع عمارت کی تعمیر ممکن ہوتی ہے۔ امام خمینی نے کہا تھا کہ قانون اساسی، اساس مملکت و در راس ہمہ چیز است و بہ جز آن ھیچ چیز دیگر نباید در این مملکت حکم کند۔ ہمہ افراد ہر کشوری باید خودشان را با آن تطبیق بدہند۔ جب اس ایرانی آئین میں ایک چیز کی اجازت ہے اور اسے حقوق ملت کے زمرے میں رکھا گیا ہے تو خود فیصلہ کرلیں کہ سامری کے بچھڑوں کو کس باڑے میں پالا جا رہا ہے؟ بقول علامہ اقبال
ہے کس کی یہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے
حریت افکار کی نعمت ہے خداداد
قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد!

(نوٹ: امت، ملت، قوم، ان سب پر شہید بہشتی نے بہت کچھ کہا ہے۔ اسکے علاوہ بھی اس موضوع پر میرے پاس بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے۔ اگر قارئین چاہیں گے تو ضرور لکھوں گا ورنہ اسی پر اکتفا)۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button