دہشتگردی کا طوفان اور شہادتوں کی داستان
تحریر: علی ناصر الحسینی
ایک وقت تھا کہ جب کراچی پاکستان کا عروس البلاد یا روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، مگر آج اس شہر بیمثال کا سارا حسن و جمال ماند پڑ گیا ہے۔ اس کی جاگتی راتیں اندھیروں میں بدل دی گئی ہیں، اس کے روشن اور چمکتے دن ختم نہ ہونے والی تاریکی کا سماں پیش کر رہے ہیں، یہاں سے اپنائیت نے ہجرت کرلی ہے، اس شہر سے برداشت کا مادہ رُوٹھ سا گیا ہے۔ اس شہر کی کشش اور جاذبیت نے کہیں اور بسیرا کرلیا ہے، یوں لگتا ہے کہ ہر شئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کراچی اب کرچی کرچی ہوگیا ہے۔ کراچی کو کرچی کرچی کس نے کیا ہے؟ کراچی کے کرچی کرچی ہونے کا مطلب پاکستان کا کرچی کرچی ہونا ہے۔ یہ پاکستان کی اقتصادی حب ہے مگر اس شہر کی جگمگاہٹ اور اس کے باسیوں کی مسکراہٹ چھین لی گئی ہے، کون ہے یہ چھیننے والا؟ محبتوں کو نفرتوں میں بدلنے اور برداشت کی چتا کو آگ لگانے والا کون ہے۔؟
آج کراچی جس صورتحال سے دوچار ہے، یہ دو چار برسوں کی بات نہیں، یہ تین دہائیوں سے مسلسل تباہی و بربادی کی طرف بڑھنے کا نتیجہ ہے۔ گذشتہ ایک برس سے ملک پر مسلم لیگ نون کی حکومت ہے تو اسے انرجی کرائسس اور دہشت گردی جیسے گھمبیر مسائل سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی جو ہر کام کی راہ میں رکاوٹ ہے، جو ترقی اور پیش رفت کا چلتا پہیہ جام کر دیتی ہے، جو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے، جو امن و سکون غارت کر دیتی ہے، جو اعتماد اور یقین کو چھین لیتی ہے، جو اُمید کو توڑ دیتی ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے پورے ملک کو بالعموم اور کراچی کو بالخصوص جکڑے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کا سایہ اس قدر گہرا اور طویل ہوگیا ہے کہ اب اسے پاکستان کے ساتھ لازم ملزوم سمجھا جانے لگا ہے۔
حکمران اگرچہ مذاکرات میں غرق ہیں، مگر یہ قتل و غارت گری مسلسل جاری ہے۔ فرقہ وایت کا جن امن معاہدوں کے دور میں بوتل میں بند نہیں کیا جاسکا اور اپنے منحوس کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ہمیشہ سے کسی قاعدے و ضابطے کی پابندی سے نابلد رہا ہے، یوں تو ملک بھر میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے، مگر سب سے زیادہ کراچی شہر میں نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ یہاں کی ٹارگٹ کلنگ مختلف النوع ہے، کبھی ڈاکٹرز کی سیریز چلتی ہے اور کبھی تعلیم سے وابستہ اساتذہ اور پروفیسرز کی، کبھی شاعر اور خطیب تو کبھی سوشل ورکرز، کبھی تنظیمی افراد تو کبھی عام شیعہ نشانہ بنائے جاتے ہیں۔
کراچی میں پولیس اور رینجرز کے ہوتے ہوئے ایک طرف تو اہل تشیع کو چن چن کر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف شیعہ نوجوانوں کو ہی بے گناہ گرفتار کرکے انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے اور پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ دہشت گرد کالعدم گروہ کے کتنے ہی ٹارگٹ کلر کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پکڑے گئے مگر کسی کو سزا نہیں ملی۔ جس کے باعث یہ سلسلہ یونہی چل رہا ہے، لاہور سے پکڑے جانے والے دہشت گرد گروہ کے اراکین نے کتنے قتلوں کو تسلیم کیا ہے اور اپنے ہی لوگوں کو عہدوں کے چکر میں قتل کرکے الزام اہل تشیع پر لگایا گیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب شمس الرحمان معاویہ قتل ہوا تو مال روڈ جہاں جلسہ و جلوس کی پابندی ہے، ان لوگوں نے میت رکھ کر دھرنا دیا، یہ دھرنا چھ گھنٹے تک جاری رہا تھا اور مطالبہ قاتلوں کی گرفتاری کا تھا، نعرے شیعوں کیخلاف لگتے رہے تھے۔
آج قاتل بے نقاب ہوچکے ہیں، ان کے منحوس چہروں سے نقاب اتر چکا ہے، اس کے بعد معمولی سی بھی گنجائش نہیں بنتی تھی کہ حکمران ان عناصر کو سر پہ بٹھاتے اور تمام کیسز میں ان کی ضمانتیں کرواتے، مگر بدقسمتی سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ حکمران یہ بات بھول گئے ہیں کہ یہ دہشت گرد ان بچھوؤں کی مانند ہیں جن کا کام ہی ڈنگ مارنا ہے، چاہے انہیں کوئی جان بچانے کیلئے پکڑے یا کسی اور مقصد سے، یہ ڈنگ ہی مارتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو اس کیلئے تیار رہنا ہوگا کہ انہیں اپنے ہی پالتو کب اور کہاں ڈستے ہیں۔
یزیدیت کا سلسلہ کربلا سے شروع ہو کر آج تک چل رہا ہے۔ کربلا سے پہلے یزیدیت کا نام سفیانیت تھا، یہ ہر دور میں کسی نہ کسی نام کے ساتھ موجود تھی، کام ایک ہی تھا۔ آج ہمارے پیارے پاکستان میں فرزند رسول ؐ سید الشہداء حضرت امام حسین ؑ کے نام لیواؤں کو چن چن کر گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے شہید کیا جاتا ہے۔ کہیں مجلس روکی جاتی ہے، کہیں امام بارگاہ کو شہید کیا جاتا ہے اور کہیں ماتمی جلوسوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ اصل ہدف یہ ہے کہ امام حسین ؑ کی عزاداری(پیغامِ حق) کو روک لیا جائے، اسے ختم کر دیا جائے، اسے محدود کر دیا جائے۔ دشمن کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم عزاداری کی خاطر قربانیاں پیش کرتے رہیں گے، شہادتیں، اسارتیں اور جسموں پر آنے والے زخموں کے نشان ہمیں حق کی اس راہ سے جدا نہیں کرسکتے۔
ہم لبیک یاحسین ؑ کا شعار بلند کرتے رہیں گے، ہمیں آگے بڑھنا ہے، ہم آگے بڑھتے رہیں گے، ہمیں پرچم حسینی ؑ کو کسی بھی صورت میں گرنے نہیں دینا، علمدار کربلا نے ہمیں یہی درس دیا ہے کہ بازو کٹ جائیں پرچم نہ جھکنے پائے، امام حسین ؑ نے اپنے اکہتر قریبی ساتھی شہید کروا کے بھی اس پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا، ان کی شہادت عظمٰی کے بعد اسے سیدہ زینب سلام اللہ نے اٹھایا اور پکڑ کر سید سجاد ؑ کے سپرد کر دیا۔ ہمارا عزم ہے کہ اہ
م اس امانت کو اگلی نسل تک سرخروئی کیساتھ پہنچائیں گے، ہم اسے سربلند رکھیں گے، جب تک امام وقتؑ ظہور نہیں فرمالیتے، ان کی رہبری میں ہم یا لثارات الحسین ؑ کے پرچم تلے حضرت حجت کے کارواں میں جہاد کریں گے۔ یاد رکھو! قتل و غارت کے یہ سلسلے ہمیں امام کی راہ سے ہٹا نہیں سکتے۔
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
ہمارا عقیدہ ہے کہ دشمنان اہلبیت ؑ کی گولیوں کا نشانہ بننے والے انشاء اللہ کربلا والوں کیساتھ محشور ہونگے اور ہمارے قاتل یزیدی و سفیانی صف میں ہاتھ باندھے کھڑے ہونگے۔
گذشتہ ماہ کی آخری تاریخ 31 مارچ کو ہونے والے واقعات گذشتہ شمارے میں رہ گئے تھے، انکو شامل کرکے اپریل 2014ء میں ہونے والے اہم واقعات شہادت کی داستان کچھ اس طرح سے ہے۔
31 مارچ پاراچنار:
پاراچنار احمد زئی کے علاقے سپن خیل میں مومنین کی کار بارودی سرنگ سے تباہ، 3مومنین زخمی۔
اسی دن خیر پور ٹنڈو مستی کے گاؤں پھوڑی چانڈیو میں شیعہ مولوی یونس چانڈیو دہشت گرد حفیظ کی فائرنگ سے زخمی ہوئے، جو ایک دن بعد یکم اپریل کو شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ احتجاجی دھرنا، FIR درج کرلی گئی۔
2 اپریل کراچی:
منظور کالونی عیدگاہ چوک میں دکان پر فائرنگ 27 سالہ اسد چاولہ شہید۔
7 اپریل کراچی:
حسن کالونی کی حدود میں تکفیریوں کی فائرنگ سے سید انور شاہ ولد جعفر شاہ شہید
8 اپریل کراچی:
F.B ایریا بلاک ۱۶ یوسف پلازہ کے قریب کلینک پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے شیعہ ڈاکٹر قاسم عباس شہید، ایک اہل سنت برادر زخمی۔
9 اپریل کراچی:
گلستان جوہر دارالصحت ہسپتال کھارادر میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے شیعہ نوجوان بہار حسین شہید، جبکہ PMLN کے نائب صدر ایڈووکیٹ وقار حسین زیدی، ڈسکو بیکری کے پاس شہید کر دیئے گئے۔ پاراچنار میں جالندھر کے شیعہ ٹیکسی ڈرائیور کو صدہ کے قریب شناخت کے بعد شہید کر دیا گیا۔
10 اپریل کراچی:
گولیمار علی بستی پان شاپ پر فائرنگ سے غلام حسین بٹ ولد محمد باقر شہید جبکہ دو افراد زخمی۔
11 اپریل ڈی آئی خان:
معروف شیعہ شخصیت بہرام خان گاڈی الٰہی بخش خان کو تکفیریوں نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔
11 اپریل کراچی:
مارٹن روڈ پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے شیعہ وکیل غلام حیدر شہید
12 اپریل کوئٹہ:
سریاب روڈ پر واقع اڈے الیوسف ٹرمینل پر بس سے اتار کر دو مومنین نجیب اور جمعہ خان شہید۔
14 اپریل کراچی:
NED یونیورسٹی کے پروفیسر منتظر مہدی (محمد یوسف) فائرنگ سے شہید۔ تعلق دادو سے تھا، مکتب تشیع کو قبول کیا تھا۔
17 اپریل کراچی:
ناظم آباد اردو بازار میں حسن الیکٹرک سٹور پر فائرنگ سے صادق حسین شہید۔ ایک زخمی
18 اپریل کراچی:
15 اپریل کو لیاقت آباد میں بوتراب اسکاؤٹس کے زخمی کمانڈر ارشد نقوی زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے۔
20 اپریل پاراچنار:
پاراچنار کشمیر چوک پر واقع جلال نامی مومن کے گیٹ پر دھماکہ، جانی نقصان نہیں ہوا۔
20 اپریل کراچی:
ناظم آباد انڈر پاس کے قریب 26 سالہ شیعہ نوجوان سید محمد علی نقوی زخمی
21 اپریل کراچی:
لیاقت آباد میں کار پر فائرنگ سے شیعہ پروفیسر سیف الدین شہید کر دیئے گئے، ساتھی زخمی۔
22 اپریل کراچی:
بھٹو کالونی کے برادر شاہد علی قلندریہ چوک میں فائرنگ سے شہید۔
اسی دن کراچی F.B ایریا بلاک 19 سمن آباد میں کار پر فائرنگ سے شیعہ نوجوان سجاد رضا ولد مہدی رضا شہید ہوگئے۔
23 اپریل کراچی:
نصرت بھٹو کالونی میں کار پر فائرنگ سے اعجاز حسین ولد حاجی قربان شہید ہوگئے۔ مرتضٰی علی بنگش کو تکفیریوں نے اغوا کے بعد شہید کر دیا
23 اپریل فیصل آباد:
گھوکوال میں سید احسان زیدی کو ان کی دکان پر فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔ گذشتہ برس اسی جگہ ان کے دو کزنز بھی شہید کئے گئے تھے۔
شکار پور میں مسجد امام زمانہ ؑ پر فجر کی نماز کے دوران شیعہ وکیل غلام عابد پر قاتلانہ حملہ، زخمی
25 اپریل کراچی:
ڈیفنس فیز5، دہلی کالونی میں یثرب مسجد سے آنے والی شیعہ نمازیوں کی بس کو بم سے اڑانے کی کوشش، 7 عام لوگ شہید، بس میں بیٹھے نمازی زخمی۔ اسی دن فیصل حسن کو بھی فائرنگ سے شہید کر دیا۔
26 اپریل کراچی:
جوہر چورنگی سنی پرائڈ فلیٹ کے سامنے متحرک شیعہ جوان فیصل کو شہید کر دیا گیا۔
27 اپریل ڈی آئی خان:
شیعہ پولیس کانسٹیبل محمد نواز کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔ شہید کے قتل کیس میں حاجی مورہ کے عبد الرحمٰن اور مقبول نامی دہشتگرد گرفتار۔
30 اپریل۔
ہنگو میں ایک مومن فرہاد علی دہشتگردوں کے حملے میں زخمی جبکہ پشاور میں ایک مومن سید اظہر علی زیدی کو شہید کر دیا گیا۔