پاکستان، مذہب پسندوں اور سیکولر کا المیہ (خصوصی تحریر)
تحریر: سید علی عمران کاظمی
پاکستان میں معاملہ خواہ خارجہ پالیسی کا ہو یا قانون سازی کا، نصاب تعلیم کا ہو یا دہشتگردی کے خاتمے کا، قائداعظم کی ذات زیر بحث ہو یا کسی موجودہ کلیدی ادارہ کے سربراہ کی، جو واضع ترین نقط نظر سامنے آتا ہے وہ یا تو دین پسند ہوتا ہے یا سیکولر۔ آج کوئی کتاب شائع ہو، کوئی دانشور مشہور ہو یا کسی ممتاز شاعر کی بات کی جائے تو سب سے پہلا سوال یا خیال یہ آتا ہے کہ آیا یہ دائیں بازو (اسلام پسند) سے ہیں یا بائیں بازو (سیکولر) سے؟ چونکہ ان دونوں افکار کے حامل افراد اخبارات، کتب، ٹیلی ویژن، NGOs، مساجد، نجی اداروں و دیگر ذرائع سے اپنا نقط نظر عوام تک پہنچاتے رہتے ہیں، جسکے نتیجہ میں عوام کے پاس دو رستے رہ جاتے ہیں، یا تو وہ ان میں سے کسی ایک طبقہ کی اندھی پیروی کریں یا کنفیوژن کا شکار ہو جائیں۔ دونوں صورتوں میں معاشرہ محاذ آرائی اور فکری پراگندگی کا شکار ہوتا ہے۔
دین پرست طبقے کا المیہ یہ ہے کہ وہ شدید تقسیم کا شکار ہے۔ یہ تقسیم کبھی دو فرقوں کے درمیان اور صرف فکری نوعیت کی ہوا کرتی تھی، اب ہر فرقہ دسیوں گروہوں میں بٹ چکا ہے اور فکری بحثوں کی جگہ مسلح جنگ و جدل نے لے لی ہے۔ جو مذہبی گروہ اگر ظاہراً غیر مسلح بھی ہیں تو ان کی اکثریت پس پردہ یا کھلم کھلا کسی متشدد گروہ کی طرف جھکاوٗ رکھتی ہے۔ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ سب گروہ کرتے ہیں لیکن تشریح کے دوران شدت سے اپنی خاص فکر جو عموماً سطحی و تنگ نظری پر مبنی ہوتی ہے، کا اظھار کرتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس فکر سے اختلاف رکھنے والوں کو دین سے خارج سمجھتے ہیں۔ یہ طرز عمل مختلف گروہوں کے پیروکاروں کے درمیان محاذ آرائی کا سبب بنتا ہے، جسکے نتیجے میں ایک فرقہ دوسرے فرقے کی مساجد پر مسلح قبضے اور خانہ خدا کی بے حرمتی تک سے نہیں چوکتا۔
دینی مداررس قائم کرنا مختلف فرقوں کے لئے نہ صرف فقط ایک منافع بخش کاروبار کا وسیلہ بن گیا ہے بلکہ پیروکاروں میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ آسانی سے سرکاری زمین پر قبضہ کرکے عام بیرونی امداد سے نہایت کم وقت میں مدرسہ تیار ہوجاتا ہے۔ مدارس کی غالب اکثریت میں جدید تو درکنار، واجبی عصری علوم تک نہیں پڑھائے جاتے۔ دنیاوی تعلیم میں پیچھے رہ جانے والے بچوں کو جمع کر لیا جاتا ہے، چندہ و امداد وصول کیا جاتا ہے اور چند سال بعد ان طالب علموں کو مولانا و علامہ کے لقب کے ساتھ معاشرہ کے سپرد یا یوں کہیے کہ معاشرہ ان کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ایسے فارغ التحصیل "علماء” فقط فرقہ پرستی اور تعصب پھیلانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ اپنی بات میں وزن اور تاثیر پیدا کرنے کے لئے اپنے فرمائے ہوئے کو قرآن کا حکم، حدیث کا ماحصل اور شرعی قانون کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے زیر اثر عوام یا تو تعصب کی پٹی باندھ کر ان کی پیروی شروع کر دیتے ہیں یا پھر سرے سے اسلام سے ہی متنفر ہوجاتے ہیں۔
دیہی اور پسماندہ علاقوں کے عوام بچوں کو مدارس کے حوالے اس لیے بھی کرتے ہیں کہ انہیں اخراجات ادا نہیں کرنے پڑتے۔ مدارس میں بچوں کو دو وقت کا کھانا، سال میں 2 جوڑے کپڑے، باآسانی مل جاتے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بعض مدارس بچوں کے کھانے کا انتظام خود نہیں کرتے بلکہ صبح و شام کے وقت 2، 2 بچوں پر مشتمل گروپ ایک چھابڑی اور بالٹی کے ہمراہ نزدیکی آبادیوں کا چکر لگاتے ہیں اور اپنے کھانے کا انتظام خود کرتے ہیں۔ اس عمل کو ان علاقوں میں وظیفہ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ چند مخصوص مدارس میں تواتر سے پیش آنے والے جنسی جرائم کے واقعات جو کہ بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں، میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے الیکٹرانک میڈیا اپنی کئی رپورٹس بھی نشر کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ برھتی ہوئی شدت پسندی، انتہا پسندی، دہشت گردی میں مخصوص مدارس کا کردار نظر آتا ہے۔ طالبان کے سابقہ اور موجودہ کمانڈرز کا تعلق بھی مدارس سے ہی رہا۔ اس کے علاوہ ملک میں ہونے والی ننانوے فیصد دہشت گردی میں ملوث افراد کسی نہ کسی مدرسے سے ہی فارغ التحصیل تھے۔
حال ہی میں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں موجود چند مدارس طالبان کے لیے کیمپ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح دین اسلام دین سلامتی ہے اور دہشت گرد گروہ یہ لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی کا ٹول بنے، جس کے باعث دنیا میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کیا گیا، اس طرح تمام مدارس بھی دہشت و جرائم اور نفسیاتی امراض کی آماجگاہیں نہیں، بلکہ ملک میں ایسے مدراس بھی موجود ہیں جہاں دینی، عصری تعلیم بطریق احسن دی جاتی ہے، جہاں اتحاد بین المسلمین و بین المذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاں انسان کو خدا سے روشناس کرا کے معاشرے میں اس کی ذمہ داریوں اور کردار سے آشنا کرایا جاتا ہے۔ ان مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے مثالی معاشروں کی تشکیل کا باعث بھی بنے ہیں۔ حقیقی مدارس نے انسان کو انسانیت کی معراج سے روشناس کرایا ہے۔
جو دینی جماعتیں سیاست میں حصہ لیتی ہیں، ان کی داستان بھی مختلف نہیں۔ عوام سے ووٹ قرآن و اسلام کے نام پر لیا جاتا ہے اور جب اصولی فیصلہ کرنے کی باری آتی ہے تو امریکہ سے لیکر مطلق العنان فوجی حکمرانوں تک، دائیں بازو کی روایتی سیاسی جماعتوں سے لیکر کٹر سیکولر و دین مخالف جماعتوں تک ہر کسی سے ساز باز کر لی جاتی ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہم نے ملکی سلامتی اور دین کی سربلندی کیلئے ایسا کرنا مناسب سمجھا۔ جن دینی جماعتوں کو صوبائی حکومت بنانے یا
مرکزی حکومت کا حصہ بننے کا موقع ملا، انہوں نے قدم قدم پر مسلمہ دینی اصولوں کو پامال کیا بلکہ دین ہی کو اپنے اعمال کا جواز قرار دیا۔ عوام کا دین کے فہم سے عاری ہونا اور عمومی ناخوندگی ایسے دینی شعبدہ بازوں کی کامیابی کی بنیادی وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔
سیکولر قوتیں، دینی قوتوں کی اس صورتحال کو بنیاد بنا کر ایک دلچسپ نتیجہ اخذ کرتی ہیں۔ ان کے مطابق دین ریاست کے امور چلانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہ عوام میں تعصب کے بیج بوتا ہے اور شخصی آزادیوں پر قدغن لگاتا ہے۔ ہر معاملہ کے گہرے فکری و تاریخی تجزیہ کے عادی یہ حضرات دین کو فقط پاکستان میں اسکی ظاہری شکل کی بنیاد پر مسترد کر دیتے ہیں۔ اسلام کے تاریخی، سیاسی و علمی سرمایہ پر تحقیق کئے بغیر، نیز برصغیر کے مسلمانوں کے دینی شعور کی خامیوں کی نشاندہی کی بجائے، یہ تو سرے سے اسلام ہی کو قصور وار ٹھہرا دیتے ہیں، جبکہ سیکولر ڈیموکریسی کے دوغلے پن اور ترقی یافتہ ممالک میں سماجی بحرانوں کو انکی سائنسی و تعمیراتی ترقی کے پردے تلے چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ قوتیں معاشرے کی بنیاد شخصی رائے اور عمل کی مطلق آزادی پر رکھتی ہیں، جس کے مطابق ہر شخص آزاد ہے کہ وہ مسجد جائے، مندر جائے یا مئے خانے۔ مئے خانے پر تو ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ شراب نوشی پر پابندی فقط "پیاس” کی قیمت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ جس نے یہ شوق کرنا ہے وہ ہر صورت کرے گا۔ اس لیے اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیا پھر باقی منشیات کی فراہمی پر سے بھی پابندی ہٹا لینی چاہیے۔؟ اقدار بھی بالکل ذاتی نوعیت کا معاملہ قرار پاتا ہے۔ ایک شخص کے نزدیک جو شے محترم ہے، دوسرے شخص کو پورا اختیار ہے کہ وہ اس شے کی نہایت بھونڈے انداز میں تضحیک کرے۔ پہناووں اور نشریات میں مغربی طرز زندگی کو جدت کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ عریانی کو انٹرٹینمنٹ کے نام پر نشر کر دینے کا حامی یہ طبقہ کہتا ہے کہ کیا دیکھنا ہے، کیا نہیں دیکھنا یہ انتخاب ناظرین پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر وہ بولڈ نشریات کی تاب نہیں رکھتے تو وہ کوئی با پردہ، دینی چینل ملاحظہ کریں۔
آج عریانی مغرب تک میں ایک خطرہ کے طور پر دیکھی جانے لگی ہے۔ وہاں کئی ادارے اپنے ملازمین کیلئے مناسب لباس کو لازمی قرار دے چکے ہیں۔ اگر یہ ایک خطرہ ہے تو خطروں کے انتخاب کا اختیار عوام کو نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ مہلک ہتھیاروں کی فروخت عام کر دی جائے، اس بنا پر کہ عوام مناسب سمجھیں تو خرید لیں ورنہ نہیں۔ اس امر کا وہی نتیجہ نکلے گا جو مغربی ممالک میں فحاشی کا نکل رہا ہے۔ مغرب کی سائنسی ترقی ایک حقیقت ہے، لیکن اس بنیاد پر وہاں کی معاشرتی اقدار کو بنا پرکھے اپنے معاشرے پر لاگو کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ تاریخ کا مشاہدہ کریں تو مغرب ہمیشہ سے سائنسی ترقی کا حامل نہیں رہا۔ ایک دور میں ایران ترقی یافتہ تھا، جبکہ ایک زمانہ میں مسلمان سائنس دانوں کی رسد گاہوں اور تعلیمی اداروں کا دنیا میں بول با لا تھا۔ ان کی ترقی نہ تو دین کے نام پر پیش کئے جانے والے بے سروپا، دقیانوسی پاکستانی اسلامی ماڈل کی مرہون منت تھی اور نہ ہی سیکولرازم کے موجودہ اصولوں کی۔
آج کی دنیا میں بھی کئی پسماندہ قوموں نے مغربی اصولوں سے ہٹ کر صنعتی و سماجی ترقی کی ہے، جن میں چین، کوریا اور جاپان وغیرہ شامل ہیں۔ صنعتی و سائنسی حوالے سے سینکڑوں سال پسماندہ رہنے والی قومیں، سمت درست ہونے پر چند ہی سالوں میں ظاہری ترقی کے کمال کو پا لیتی ہیں۔ دین کو تعصب و قتل و غارت گری کی بنیاد قرار دیں تو عالمی جنگوں کو کس مذہب کے کھاتے میں ڈالیں گے، اور موجودہ ورلڈ آرڈر (world order) جو سیکولر حکومتوں کا نافذ کردہ ہے، کیوں دنیا کو مساوات، آزادی اور امن دینے میں ناکام ہے؟ شخصی آزادی اور عوامی بہبود کے علمبردار سیکولر ممالک میں خودکشی، جرائم اور ڈپریشن کی شرح بلند کیوں ہے؟ ماحولیات اور جانداروں سے محبت کا درس دینے والے ممالک کی صنعتیں کیوں ماحول تباہ کرتے ہوئے اوزون میں شگاف ڈال رہی ہیں اور گلوبل وارمنگ کا سبب بن رہی ہیں۔؟ کیا ان سوالات کا جواب تلاش کے بغیر سیکولر اصولوں اور بازاری معیشت کو اپنا لینا چاہیے۔؟
سیکولر معاشرے میں اگر ایک شخص پیشہ ورانہ (professional) تعلیم حاصل کرکے صنعت و معیشت کا پرزہ بن جاتا ہے تو معاشرے کو اس شے سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کیا دیکھتا ہے، کیا پہنتا ہے، کیا سوچتا ہے، اقدار کا حامل ہے یا نہیں۔۔۔ چونکہ وہ معیشت کے لئے فائدہ مند ہے، اس لئے قابل قبول ہے۔ معیشت ایسے معاشروں کا غیر اعلانیہ خدا ہے، جس کی کسوٹی پر ہر عمل کو تولا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کون سا نظریہ دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ دین کی حقیقی تعلیمات موت کے بعد کی زندگی اور جزا و سزا پہ ایمان پر استوار ہیں۔ اس بنیاد پر اگر انسانی زندگی ترتیب دی جائے تو اس زندگی کا مطمع نظر صرف صنعتی ترقی اور تعیشات میں اضافہ نہیں ہوگا، بلکہ اقدار اور اصول اس پر حاکم ہوں گے، جس میں ہر عمل سے قبل جزا و سزا کا خیال اور سماجی ذمہ داری وغیرہ شامل ہے، جبکہ ماڈرن سیکولرازم عملاً ان تمام اصولوں کے منافی ہے۔ سیکولرازم اسی دنیا کو مقام جزا و سزا قرار دیتا ہے۔ نتیجتاً جو اس مادی دنیا میں کسی بھی ذریعہ سے مادی ترقی کر لے، وہ سرخرو ٹھہرتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا چاہے با اصول ہی ہو، قابل نفرت و غضب ٹھہرتا ہے۔ یہ نظریہ ایک ایسے ماحول کو جنم دیتا ہے، جس میں ایک دوجے کی گردن پہ پاؤں رکھ کر مادی فوائد سمیٹنا جائز ہے۔