تکفیری شدت پسندی اور جرائم خیبر پختنونخوا میں صنعتی زوال کا سبب ہیں، رپورٹ
شیعہ نیوز (پشاور) نيوز ايجنسی آئی پی ايس کی ايک رپورٹ کے مطابق صوبہ خيبر پختونخوا ميں تکفیری شدت پسندی کے علاوہ اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری اور ديگر جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے سبب وہاں صنعتی سرگرمياں بری طرح متاثر ہو رہی ہيں۔ صوبائی چيمبر آف کامرس کے اہلکاروں کے مطابق قريب ايک تہائی فيکٹری مالکان کو جنگجوؤں کی طرف سے دھمکياں موصول ہو چکی ہيں۔ جنگجو فيکٹری مالکان سے مطالبہ کرتے ہيں کہ انہيں آزادانہ طور پر صنعتی سرگرمياں جاری رکھنے کے بدلے بھاری رقع ادا کرنا ہو گی۔ اس صورتحال کے نتيجے ميں متعدد صنعت کاروں کا تو ديواليہ نکل چکا ہے جبکہ ديگر کئی اپنے کاروبار وغيرہ بند کر کے علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہيں۔ کاروباروں اور دکانوں کی بندش کی وجہ سے علاقے کے قريب ايک لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہو گئے ہيں۔
خيبر پختونخوا چيمبر آف کامرس کے سربراہ زاہد شینواری نے خبر رساں ادارے آئی پی ايس کو بتايا کہ ’خود کو طالبان جنگجو بتا کر بھتے کا مطالبہ کرنے والوں‘ کی وجہ سے مالدار صنعت کاروں علاقہ چھوڑ رہے ہیں اور اسی وجہ سے خطے کے 2,200 انڈسٹريل يونٹ بند ہو چکے ہيں۔ شنواری نے مزيد بتايا، ’’لوگ اپنے سرمائے اور فيکٹرياں لاہور، اسلام آباد اور فيصل آباد جيسے قدرے محفوظ شہروں ميں منتقل کر رہے ہيں۔‘‘ صوبائی چيمبر آف کامرس کے سربراہ کے بقول مقامی پوليس کو جرائم پيشہ افراد تک پہنچنے ميں کافی دشوارياں پيش آتی ہيں کيونکہ يہ لوگ پاکستان کے نيم خود مختار علاقے فاٹا فرار ہو جاتے ہيں، جہاں سے انہیں افغانستان تک آسانی سے رسائی مل جاتی ہے۔
انہی حالات سے متاثرہ ايک شخص رسول شاہ بھی ہيں، جو ان سے مانگی گئی بھتے کی رقم ادا نہ کر سکنے کے سبب 2013ء ميں سنگ مرمر کی اپنی ايک فيکٹری بند کر چکے ہيں۔ انہوں نے آئی پی ايس سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’ہميں متعدد گروپوں کو رقم ادا کرنا پڑ رہی تھی، جو ہمارے ليے ممکن نہيں تھا۔ ايک گروپ ايک لاکھ ڈالر ماہانہ وصول کر رہا تھا، تو دوسرے نے اس سے دگنی رقم کا مطالبہ کيا۔ ہميں نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔‘‘ شاہ کے بقول اس صورتحال سے صوبے کا کوئی بھی ضلع نہيں بچا ہے۔ صوابی ضلعے کے گدون امازئی انڈسٹريل اسٹيٹ ميں ايک وقت قريب تين سو يونٹ فعال تھے جبکہ گزشتہ ايک برس سے ان ميں سے قريب دو سو بند پڑے ہيں۔
آئی پی ايس کی رپورٹ کے مطابق جنگجو پہلے اپنے اہداف کو خط کے ذريعے دھمکی ديتے ہيں اور بھتے کی رقم کا مطالبہ کرتے ہيں۔ اگر اہداف يہ رقم ادا نہ کریں تو انہيں يا ان کے اہل خانہ کو اغواء کر ليا جاتا ہے، جس کے بعد ايک لاکھ تا ايک ملين ڈالر تک کی رقم کا مطالبہ کيا جاتا ہے۔
دوسری جانب خطے ميں کچھ ايسے لوگ بھی ہيں جو حالات سے لڑتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تيار کرنے ميں مصروف ہيں۔ پوليس چيف ناصر درانی نے نيوز ايجنسی کو بتايا کہ صوبے کے تين مختلف انڈسٹريل اسٹيٹس ميں تين مختلف پوليس اسٹيشن قائم کرنے کا منصوبہ بنايا گيا ہے۔ ان کے بقول ٹيلی فون کال ٹريس کرنے کے آلات بھی نصب کيے جا رہے ہيں تاکہ کال کر کے بھتہ طلب کرنے والوں کا پتہ لگايا جا سکے اور پھر انہيں گرفتار کيا جا سکے۔ ناصر درانی نے بتايا کہ پوليس حکام نے کاروباری سرگرميوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ليے مقامی صنعت کاروں کے ساتھ ملاقاتيں کی ہيں۔
خيبر پختونخوا کے وزير اطلاعات شاہ فرمان نے بھی نيوز ايجنسی آئی پی ايس کو بتايا کہ حکومت چھ نئے صنعتی زون قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے ميں اسٹيل، پلاسٹک، ادويات، تيل اور ديگر اشياء کی پيداوار ميں اضافہ ہو سکے۔