مانسہرہ میں تکفیریوں کی سرگرمیوں پر انتظامیہ اور پولیس خاموش
شیعہ نیوز (مانسہرہ) اہلیان علاقہ نماز کی ادائیگی کے بعد حسب معمول مسجد کو تالا لگا کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی پر واقع کنڈ سیداں میں گرج چمک کے ساتھ بارش ہو رہی تھی۔ اچانک ایک زوردار دھماکے سے علاقہ لرز اٹھا، گمان کیا گیا کہ آسمانی بجلی آن پڑی ہے لیکن ایسا نہ تھا، جامع مسجد امیرالمومنین علیہ السلام کے قریب واقع ایک گھر سے ایک بزرگ باہر آئے، ان کی نظر اچانک مسجد پر پڑی جو مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی۔ بزرگ نے چیخ و پکار شروع کر دی اور اہلیان علاقہ کو بیدار کیا، لوگ جمع ہوگئے آکر دیکھا کہ مسجد کی چھت اڑ چکی ہے، دیواریں گر چکی ہیں۔ لوگوں نے فوری طور پر علماء کرام سے رابطہ کیا، جنہوں نے اسی رات تھانہ بفہ کے ایس ایچ او کو اطلاع دی، اگلی صبح پولیس، خفیہ ادارے اور میڈیا موقع پر پہنچ گیا، بم ڈسپوزل اسکوارڈ نے جائے وقوعہ کا جائزہ لینے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ دھماکے میں دیسی ساخت کا پانچ کلو بارود استعمال کیا گیا ہے۔
اہلیان علاقہ سراپا احتجاج تھے لیکن ان کی سننے والا کوئی نہ تھا، لوگوں کا ایک وفد علماء کرام کی سربراہی میں ڈی پی او مانسہرہ خرم رشید کے دفتر پہنچ گیا، جس کا رویہ انتہائی نامناسب اور غیر تسلی بخش تھا، موصوف نے مشتعل لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے محکمہ پولیس کی روایتی فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفد کو یہ کہہ کر سیخ پا کر دیا کہ ڈی پی او کے پاس وقت نہیں ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ خرم رشید، وزیر اطلاعات پرویز رشید کے لاڈلے صاحبزادے ہیں۔ کرسی اور طاقت کے نشے میں چور اس پولیس آفیسر نے علماء کرام کے تقدس کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا اور وفد کو یہ کہہ کر میٹنگ برخاست کر دی کہ میرا اس وقت بات کرنے کا موڈ نہیں ہے۔ اہلیان علاقہ پولیس کے اس ناقابل برداشت رویہ کو تکفیریوں کی پشت پناہی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ضلع مانسہرہ میں تکفیریت کی بڑھتی ہوئی بے لگام سرگرمیاں اور دوسری جانب مخصوص فرقے کو نشانہ بنانے پر پولیس کی خاموشی انتہائی معنی خیز ہے۔