فرقہ واریت، پاکستان اور حکمران (خصوصی رپورٹ)
رپورٹۛ: ٹی ایچ بلوچ
پاکستان میں ضیاءالحق کے دور سے ہی مخصوص فرقوں کو دباو میں رکھتے ہوئے دیوبندی اور وہابی مسالک کو پروموٹ کیا گیا۔ آج صورتحال انتہائی دگرگونی کا شکار ہے، جسکی وجہ سے پاکستانی معاشرہ اور ریاستی ادارے علاقائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کا شکار ہو چکے ہیں۔ دنیا میں پاکستانی تشخص مجروع ہو رہا ہے اور مذکورہ خطرناک عوامل ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود فرقہ وارانہ جہتیں، ملک کو درپیش کسی بھی دوسرے چیلنج سے زیادہ خطرناک ہیں، یہ عمل انتہائی بنیادی سطح پر ہو رہا ہے، خاندانوں کے اندر، آس پڑوس میں، کمیونٹیز میں، کالجوں میں، سیاسی تنظیموں میں، سول سوسائٹی میں، غرض ہر جگہ۔ قومی یکجہتی اور سیاست کے اجتماعی نظریات کے برعکس یہ مسئلہ اپنی حقیقت میں سیاسی اور اجتماعی رنگ اختیار کر چکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
موجودہ صورتحال:
فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے پاکستانی منظر نامہ مایوس کن ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں پھر سے اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد ناقابل قبول حد تک بڑھ گیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے مطابق 2013ء میں دو سو سے زائد فرقہ ورانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 687 ہے، جو کہ 2012ء کے مقابلے میں بائیس فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق، پچھلے تین سالوں میں 950 سے زائد لوگ فرقہ ورانہ حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ اس رجحان میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت ان واقعات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 2011ء میں فرقہ ورانہ حملوں میں197، 2012ء میں 370 جبکہ گذشتہ سال 2013ء کے دوران 387 افراد ہلاک ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ فرقہ ورانہ ہلاکتوں میں صوبہ بلوچستان 528 ہلاکتوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں ماضی قریب میں شیعہ ہزارہ برادری کے خلاف سب سے زیادہ سنگین حملے ہوئے۔ دوسرے نمبر پر سندھ ہے، جہاں وزارت داخلہ کے مطابق، ہلاکتوں کی تعداد 207 ہے۔ اس کے بعد پنجاب میں 86، گلگت بلتستان میں 62، فاٹا میں 62 اور خیبر پختونخوا میں 22 جبکہ اسلام آباد میں تین ہلاکتیں ہوئیں۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ فرقہ واریت کے حوالے سے آزاد کشمیر سب سے محفوظ ہے جہاں گذشتہ تین سالوں کے دوران ایک بھی ایسی ہلاکت نہیں ہوئی۔ ذہن نشین رکھنے والی بات یہ ہے کہ فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی اکثریت جہاد کشمیر کی چھتری تلے ہی پروان چڑھی ہے۔
وزارت داخلہ نے پچھلے ماہ بھی سینیٹ کو بتایا تھا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران 2,090 افراد فرقہ ورانہ واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس موقع پر سینیٹرز نے ہلاک شدگان کی تعداد کے بارے میں اعتراضات اٹھانے کے علاوہ یہ سوالات بھی کئے کہ فرقہ ورانہ واقعات میں ملوث کتنے ملزمان کو سزائیں ہوئیں، وزارت داخلہ کی طرف سے چند سوالوں کے جواب دیئے گئے اور زیادہ کو نظرانداز کر دیا گیا۔ تجزیہ نگاروں کیمطابق حکام نے کچھ ایسی ڈرامے بازی کی کہ جیسے حکومت فرقہ واریت کا نوٹس لے رہی ہو، لیکن سب جانتے ہیں کہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔
موجودہ حکومتی اقدامات:
وزارت داخلہ کی تازہ رپورٹ میں صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ نے اپنی رپورٹ میں فرقہ ورانہ تشدد ختم کرنے کے لیے پانچ ایسے اقدامات کا ذکر کیا ہے، بقول حکومت کے جن پر وہ عمل درآمد کر رہی ہے لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ان اقدامات میں سے فرقوں کے نام پر لوگوں کی ہلاکتیں روکنے میں ناکامی ہی نظر آ رہی ہے۔ رپورٹ میں بیان کیے گئے اقدامات میں سے کچھ پہلے ہی پالیسی کے طور پر استعمال ہو چکے ہیں، اس لیے یہ حکومتی اعلانات نئی بات نہیں۔
نمبر ایک: وزرات داخلہ کے بیان کردہ پہلا اور سب سے پرانا اقدام پولیس، انٹیلجنس محکموں اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ایسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنا ہے لیکن انتظامی اداروں کی ناک کے نیچے ہی لوگوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ حال ہی کراچی کی ایک سرکاری جیل میں سزا کاٹنے والے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں نے شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے کی پاداش میں ایک قیدی کو قتل کر دیا۔
نمبر دو: حکومت کیطرف سے دوسرے اقدام کے طور پر نئی قومی داخلہ سکیورٹی پالیسی میں پرتشدد فرقہ ورانہ عناصر کی جانب سے لاحق خطرات کو قومی داخلہ سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی پنجاب حکومت کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ کالعدم سپاہ صحابہ کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہلسنت والجماعت کے احمد لدھیانوی کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں اور انکا ووٹ بینک ہمارا ووٹ بینک ہے، وہ ہمارے سیاسی حلیف ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما احمد لدھیانوی کا کہنا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں بھی پاکستان مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ تعاون کیا گیا تھا، ملک کوئی حلقہ ایسا نہیں جہاں ہمارا ووٹ نہ ہو، ہمارا ووٹ ہر حلقے میں کم سے کم آٹھ دس ہزار تو ہے، ہر حلقے میں ہم کسی کو جتانے یا ہرانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ کیسی پابندیاں ہیں کہ کالعدم سپاہ صحابہ نے ایک نئے نام کا سہارا لیکر گذشتہ دہائی میں اپ
نے آپ کو سیاسی طور پر اتنا مضبوط کیا ہے۔
نمبر تین: رپورٹس کیمطابق وزارت داخلہ کی نئی قومی پالیسی میں تیسرے اقدام کے طور پر فرقہ ورانہ ہلاکتوں کو ایک ایسے جرم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جن سے تحفظ پاکستان آرڈیننس (پی پی او) کے تحت نمٹا جائے گا۔ حکومت کو امید ہے کہ اس اقدام کے ذریعے بروقت تحقیقات اور انصاف فراہم کیا جا سکے گا۔ خیال رہے کہ حکومت نے حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کر کے اس آرڈیننس کی معیاد اگلے 120 دنوں تک بڑھا دی ہے تاہم اس آرڈیننس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
نمبر چار: حکومت نے چوتھے قدم کے طور پر نفرت پھیلانے والی فرقہ ورانہ تنظیموں پر ایک بار پھر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے موجودہ حکومت نے اپنے دور میں ایک بھی تنظیم پر پابندی نہیں لگائی، حالانکہ کئی کالعدم گروپ دوسرے ناموں کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ صحیح نگرانی اور پابندی کے موثر اطلاق کے بغیر ایسی تنظیموں پر پابندی لگانے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے کیونکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، لاہور، ملتان، جھنگ، کوئٹہ، پشاور اور شمالی علاقہ جات سمیت ملک بھر میں تکفیری گروہ نفرت آمیز تقریروں میں ویسے ہی آزاد ہیں، جیسے پابندیوں سے پہلے تھے۔
نمبر پانچ: رپورٹ میں وزارت داخلہ کی جانب سے آخری اقدام میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نفرت آمیز مواد کی اشاعت اور تقسیم پر کارروائی کرے گی۔ یہ اقدام بھی نیا نہیں، کیونکہ دہائیوں سے ماہرین کہتے آئے ہیں کہ اس طرح کے مواد پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی کی ریاستی و حکومتی پالیسیاں اور نئی توقعات:
شواہد کی روشنی میں مبصرین کی پرانی رائے ہے کہ پاکستان میں بڑھتی فرقہ ورانہ قتل و غارت خاصی حد تک سوچی سمجھی ریاستی پالیسیوں اور جان بوجھ کر نظرانداز کئے جانے کا نتیجہ ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے روکنا ریاست اور حکومت کے لیے ممکن ہے۔ سکیورٹی کے نام پر ترتیب دی گئیں ایسی پالیسیاں جو ان اسٹریٹجک اثاثوں کو پالتی پوستی رہیں، وہی فرقہ ورانہ تشدد میں ملوث ہیں، ان کی تاریخ جانی مانی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فرقہ ورانہ جنگجو گروپ حکمران پی ایم ایل (این) کا گڑھ پنجاب میں پھلتے پھولتے رہے اور انتخابات بھی جیتے رہے، یہ سب کے علم میں ہے کہ حکومت نے پچھلے انتخابات جیتنے کیلئے ان کالعدم فرقہ ورانہ گروپوں پر انحصار کیا لیکن جب پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ سے میڈیا نے سوال کیا کہ لشکر جھنگوی کیخلاف کاروائی کیوں نہیں کی جاتی تو انہوں نے کہا کہ کسی شخص کو بغیر ثبوت کے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، مثال کے طور پر پنجاب حکومت نے اقوام متحدہ کے الزامات کے بعد حافظ سعید کو گرفتار کیا تھا، لیکن ہائیکورٹ نے ثبوت نہ ہونے کی بنا پر انہیں رہا کر دیا۔ انکا کہنا تھا کہ اسی طرح لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کیخلاف کوئی ثبوت نہیں۔ البتہ ان کا یہ کہنا معنی خیز تھا کہ پنجاب حکومت نے جب رضا رومی اور اصغر ندیم سید جیسے لوگوں پر حملہ کرنے والوں کو پکڑا ہے اور ان کا تعلق لشکر جھنگوی سے تو کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہے۔ بالکل ایسے ہی جب رانا ثناءاللہ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے احمد لدھیانوی کے ساتھ مہم چلائی تھی، تو کہنے لگے کہ احمد لدھیانوی کا حلقہ اثر ہے اور انہین ووٹ کا رائٹ حاصل ہے، جب ان کا کوئی غیر قانونی معاملہ ہمارے نوٹس میں آیا تو انہیں گرفتار کرنے میں دوسرا خیال یا سیکنڈ تھاٹ نہیں ہو گی۔ دلچسپ یہ ہے کہ مسلم لیگ نون نے گذشتہ الیکشن میں احمد لدھیانوی کو اپنے امیدوار کے ذریعے ہی شکست دی تھی، اگر سپاہ صحابہ کا ووٹ بینک، مسلم لیگ نون کے لیے ضروری ہوتا تو انہی کا ووٹ بینک استعمال ہوتا نہ کہ انکے خلاف نون لیگ کو فتح حاصل ہوتی۔ کالعدم سپاہ صحابہ کا موقف، تمام تر سیاسی چال بازیوں کے باوجود واضح ہے کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ کوئٹہ میں کالعدم سپاہ صحابہ کی کانفرنس میں ایک ترانہ پڑھا گیا جس کے بول یہ تھے کہ "سو سو ہزارہ شیعہ کو اکھٹے قتل کرنے والے لشکر جھنگوی کے دہشت گرد اس لیے ہمارے ہیرو ہیں، کہ انہوں نے ٹھک ٹھک کی بجائے ایک ہی دفعہ سینچری کی ہے”۔
اپنی جماعت کو لشکر جھنگوی سے الگ قرار دینے والے کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما احمد لدھیانوی کہتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ تعاون کیا گیا تھا، ملک میں کوئی حلقہ ایسا نہیں جہاں ہمارا ووٹ نہ ہو، ہمارا ووٹ ہر حلقے میں کم سے کم آٹھ دس ہزار تو ہے، ہر حلقے میں ہم کسی کو جتانے یا ہرانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ کیسی پابندیاں ہیں کہ کالعدم سپاہ صحابہ نے ایک نئے نام کا سہارا لیکر گذشتہ دہائی میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر اتنا مضبوط کیا ہے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ لشکرِ جھنگوی پنجابی طالبان ہیں اور اہلِ سنت و الجماعت ان کا سیاسی ونگ ہے۔ انہوں نے عارضی تحفظ کے لیے سیاست کا لبادہ اوڑ رکھا ہے لیکن احمد لدھیانوی، کمال چالاکی کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا لشکرِ جھنگوی سے کوئی تعلق نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ لشکرِ جھنگوی کے ان کارکنوں کو پکڑا گیا ہے جو پنجاب میں صحافی رضا رومی پر حملے سمیت ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ، یہ لشکرِ جھنگوی والوں سے پوچھیں، میں تو سپاہِ صحابہ ہوں۔
ا
سی طرح حال میں اہلسنت والجماعت کی مرکزی شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ کا سپاہ صحابہ سے تعلق نہیں، اسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ لشکر جھنگوی ایک بار پھر اہل تشیع کیخلاف کاروائی کر سکتا ہے، مرکزی شوریٰ کا مذکورہ فیصلہ اس کے ممکنہ اثرات سے اہل سنت والجماعت کو محفوظ رکھنے کی سیاسی چال ہے۔ پہلے بھی تین بار حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے والی اس تنظیم کے حالیہ سربراہ قومی اسمبلی تک پہنچنے میں ابھی تک کامیاب تو نہیں ہوئے، لیکن سیاسی جماعتوں نے تنظیم سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے فائدہ ضرور اٹھایا ہے اور سپاہ صحابہ نے اہل تشیع کیخلاف دہشت گردی کو جاری رکھتے ہوئے، اپنی سیاسی حیثیت کو بھی مستحکم کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ مرکزی دھارے میں شامل جماعتوں کو قیمتی ووٹ دلا سکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی سیاسی مصالحت کی قیمت کیا ہوتی ہے؟
یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپوں کو اب بھی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اسٹریٹجک اثاثوں کے طور پر ہی دیکھے جانے کی پالیسی برقرار ہے۔ اس کی ایک کڑی یہ ہے کہ سب سے زیادہ فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بننے والے صوبے بلوچستان میں ان گروپوں کو مبینہ طور پر فری ہینڈ دے دیا گیا ہے، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جسے کہ غیر قانونی حراست، آزادی اظہار پر قدغن، ٹارچر اور ماورائے عدالت قتل جیسے معاملات کے ردعمل میں نیشنلسٹس اور علیحدگی پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس غیر منطقی پالیسی کی وجہ بھی ہمیشہ کی طرح عجیب ہے کہ نیشنلسٹ جذبات کو دبانے کے لئے مذہبی انتہا پسندی کے جذبات کو بھڑکایا جائے۔ اسکے جواب میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بظاہر اول الذکر، نیشنلسٹ بلوچوں سے فیڈریشن کو خطرہ ہے جبکہ آخر الذکر یعنی لشکر جھنگوی جیسے تکفیری قاتل گروہ مملکت کے استحکام میں ریاستی اداروں کے معاون ہیں۔ جسکا ایک مطلب یہ ہے کہ اہل تشیع کا قتل عام کرنے والے تکفیری گروہ ریاستی سرپرستی میں دندنا رہے ہیں۔
مدارس کا منفی کردار اور پاکستان میں عالمی ایجنڈا:
پاکستان میں بنیاد پرستی اور فرقہ وارانہ تشدد کا اہم اور بنیادی عامل دیوبندی مدارس بھی ہیں، جنہیں سعودی سرپرستی حاصل ہے۔ سینیٹ کو پچھلے مہینے یہ بھی بتایا گیا کہ گذشتہ سال پندرہ مدرسوں کو سعودی عرب سمیت مسلم ملکوں سے 258 ملین روپے ملے حالانکہ ان پندرہ مدارس میں سے گیارہ کے پاس وزارت داخلہ کا این او سی نہیں تھا۔ بڑھتے فرقہ ورانہ تشدد کا معاملہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل پر اعتراض کرنے والوں کو امن دشمن قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ پاکستانی طالبان لشکر جھنگوی سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ شیعہ کمیونٹی کے خلاف تشدد کا سب سے بڑا مجرم ہے اور شاید پاکستان میں سب سے ہلاکت خیز فرقہ ورانہ جنگجو طاقت بھی۔
حکومت اور مدارس کو سعودی عرب کی جانب سے ملنے والی نقد رقم کے حصول کے بعد، اب نواز حکومت انہیں قاتل گروہوں کے سامنے جھکے جا رہی ہے۔ درحقیقت سعودی سلطنت دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے ایک بڑی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے، ایک ایسی جنگ جو کہ قطعی طور پر فرقے کی بنیاد پر ہی لڑی جانی ہے۔ ان حالات میں کہ جب داخلی اور بین الاقوامی سیاست میں ایسی فرقہ وارانہ قوتیں موجودہ حکومت کی حلیف ہیں جو شام سے لیکر کوئٹہ تک اہل تشیع کے قتل کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، تو یہ کیسے ممکن کہ پاکستانی عوام حکمرانوں کے بارے میں خوش گمان ہوں کہ ہمارے جان و مال محفوظ ہیں۔ جب نواز لیگ یہ سمجھتی ہے کہ اسے تکفیری ووٹ بینک کی ضرورت ہے تو یہ ایک نمائشی بیان ہے، دراصل اینٹی شیعہ پالسی کی بنیاد سعودی ریال اور امریکی ڈالر ہیں، ورنہ پاکستان شیعہ ووٹ بینک تکفیری ووٹ بینک سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر نواز لیگ اور سکیورٹی ناانصافی پر مبنی نقطہ نظر چھوڑ دیں تو انہیں کوئی سیاسی نقصان نہیں، اصل طاقت عوام ہیں غیر ملکی دولت نہیں۔ اگر جیو ٹی وی بیرونی امداد لیکر ملک دشمن ایجنڈا چلانے پر مجرم ہے تو پاکستانی عوام کے قاتلوں کو اپنا ووٹ بینک قرار دینے والے کس طرح محب وطن ہیں۔ دہشت گردوں کو تزویراتی اثاثہ اور قاتلوں کو اپنا ووٹ بینک سمجھنے والوں کو ذہنیت بدلنا ہو گی، پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ قومی پالیساں عقل و ہوش اور قومی مفادات کے تناظر میں ترتیب دی جائیں، یہ آسان بھی ہے اور مفید بھی۔