جیو کا حشر فرنٹیئر پوسٹ جیسا تو نہیں ہوگا؟
رفعت اللہ اورکزئی
شیعہ نیوز : پاکستان میں انگریزی روزنامہ ’دی فرنٹیئر پوسٹ‘ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں ملک کے سب سے آزاد اور دلیر اخباروں میں شمار ہوتا تھا۔
یہ اخبار فوجی صدر ضیا الحق کی آمریت کے کڑے دور میں وجود میں آیا لیکن پھر بھی اپنی آزاد صحافت کے باعث اسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی، فرنٹیئر پوسٹ کی پالیسی بہت بے باک ہوا کرتی تھی اور یہ اخبار کھل کر ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی حمایتی سیاست پر تنقید کرتا تھا۔ ملک کے تمام بڑے ترقی پسند صحافی اور کالم نگار اس میں لکھا کرتے تھے،فرنٹیئر پوسٹ میں کام کرنے والے بیشتر سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس اخبار نے ملک کے کئی سیاسی خاندانوں، رہنماؤں، خفیہ اداروں اور وزرا کے خلاف متعدد تحقیقاتی کہانیاں کیں اور انھیں نمایاں طور پر شائع کیا،ملک کے طاقتور اور مقتدر حلقے اس کے شدید مخالف ہو گئے اور اس صحافتی ادارے کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا گیا۔
پہلے تو فرنٹیئر پوسٹ کے مالک رحمت شاہ آفریدی کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے چرس کی سمگلنگ کے ایک مقدمے میں ملوث کیا اور وہ کئی سال جیل میں رہے، رحمت شاہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے اخبار کو بند کرنے کےلیے ان کے خلاف سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تھا، مالک کی گرفتاری کے ساتھ ہی اس اہم اخبار کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ لیکن ادارے کی حقیقی موت اس وقت ہوئی جب 2001 کے شروع میں فرنٹیئر پوسٹ میں ایک توہین آمیز خط شائع ہوا جس کی وجہ سے ان کے دفاتر پر مذہبی تنظیموں نے حملے کیے، پریس جلایا، کئی دنوں تک اخبار کی اشاعت بند رہی اور اس کے کارکنوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کیے گئے، مالک کی گرفتاری کے ساتھ ہی اس اہم اخبار کا شیرازہ بکھرنے لگا لیکن ادارے کی حقیقی موت اس وقت ہوئی جب 2001 کے شروع میں فرنٹیئر پوسٹ میں ایک توہین آمیز خط شائع ہوا جس کی وجہ سے ان کے دفاتر پر مذہبی تنظیموں نے حملے کیے، پریس جلا دیا گیا، کئی دنوں تک اخبار کی اشاعت بند رہی اور اس کے کارکنوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کیے گئے۔
بالکل ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا آج کل نجی ٹیلی ویژن چینل جیو اور اس کے ہزاروں کارکنوں کو بھی ہے،سینیئر اینکر پرسن حامد میر پر حملے اور اس کا الزام آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر لگنے کی وجہ سے پہلے جیو کو کیبل پر بند کیا گیا اور اب اس کے سربراہ اور دیگر افراد کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر کسی کو جیتے جی مارنا ہو تو اس کے خلاف کوئی ایسی بات اچھالو جو کسی نہ کسی طرح مذہب کے خلاف سمجھی جا سکے۔ اور آج کل جس طرح جیو کے خلاف گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس کا بچ نکلنا شاید آسان نہ ہو۔
اگرچہ فرنٹیئر پوسٹ کے مقابلے میں جنگ گروپ کہیں زیادہ مضبوط اشاعتی ادارہ سمجھا جاتا ہے لیکن جس طرح اس سارے معاملے میں وہ اخبار اکیلا رہ گیا تھا ایسے ہی آج کل جیو بھی تنہا نظر آ رہا ہے۔
ساتھ ساتھ صحافتی اداروں میں تقسیم، تجارتی مفادات اور ایک دوسرے کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے سے یہ معاملہ روز بروز مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس سارے معاملے میں قصوروار کون ہے، پاکستان کے بیشتر غیر جانبدار صحافی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر جنگ گروپ سے غلطی ہو بھی گئی تھی تو ان کے اعتراف، وضاحتوں اور معافی کے بعد یہ قصہ ختم ہوجانا چاہیے تھا۔
اور ان صحافیوں کی نظر میں اب تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے کو ایک منصوبے کے تحت مذہبی رنگ دیا جارہا ہے جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔
فرنٹیئر پوسٹ آج کل ایک ڈمی اخبار بن چکا ہے جس کا بظاہر کوئی کردار نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جیو چینل کا حال بھی ایسا ہی ہوجائے گا یا وہ خود کو اس خطرناک نوعیت کی سنسرشپ سے بچانے میں کامیاب ہو جائے گا؟