جیو، آئی ایس آئی اور حکومت کی کہانی (خصوصی رپورٹ)
رپورٹ: محمد مہدی
ہر عروج کو زوال ہے، تکبر ہمیشہ ذلالت کی گہرائی میں لے جاتا ہے، اپنے آپ کو پاکستان کا کرتا دھرتا اور کنگ میکر سمجھنے والا جیو آج بیحد پریشان ہے، پہلے اپنے سینگ آئی ایس آئی کے ساتھ پھنسائے اور پھر توہین اہل بیت (ع) کے کیس میں ایسا پھنسا کہ اب ملک کے تقریباً نوے فیصد حصہ میں اس کی نشریات بند ہوگئی ہیں، تمام آفسز سکیورٹی کے حصار میں ہیں، لائیو کوریج کرنے والی گاڑیوں کی شکلیں تبدیل کر دی گئی ہیں، رپورٹرز کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، حکومت جیو کو بچانے کیلئے اپنی تمام توانائیاں صرف کر رہی ہے اور اب جیو کی آخری امید سپریم کورٹ آف پاکستان بن چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے نشریات بند ہونے اور پیمرا کے ایکشن پر جیو کی درخواست سماعت کیلئے منظور کر لی ہے، جس کی جمعرات کو پہلی سماعت ہوئی۔ تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ تمام اعتراضات کے باوجود بینچ سے الگ ہونے سے انکاری ہیں۔ اعتراضات اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ کیونکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے بھائی میر شکیل الرحمان کے بہنوئی ہیں، اس لئے ان سے انصاف کی امید نہیں، جبکہ جسٹس جواد خواجہ اس بات پر بضد ہیں کہ قانون، آئین اور قرآن مجید کسی جج کو فقط اس وجہ سے کیس سننے سے نہیں روکتا کہ وہ کسی کا رشتہ دار ہے، جبکہ ماضی کی روایات یہ بتاتی ہیں کہ جس کسی جج پر اعتراض ہوا تو وہ جج خود ہی بینچ سے الگ ہو گیا، خود افتخار چوہدری اپنے بیٹے ارسلان افتخار کیس میں بینچ سے الگ ہوئے تھے۔
ملک بھر میں جیو کیخلاف شدید نفرت پائی جا رہی ہے، مذہبی جماعتوں کی اکثریت نے توہین اہل بیت ؑ کی مذمت کی ہے، اکثر جماعتوں نے جیو کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت لور کورٹس میں جیو کیخلاف درخواستیں دائر ہوچکی ہیں، جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے جیو نے پہلے آئی ایس آئی کے خلاف مہم چلائی اور دنیا بھر میں دفاعی اداروں کو زیر سوال کیا، اور اب اس نے اہل بیت ؑ کی شان میں گستاخی کی ہے، جو ناقابل برداشت ہے۔ احتجاج کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ پیمرا اتھارٹی کے پانچ ممبران جیو کیخلاف فیصلہ سنا چکے ہیں کہ اس کے تین لائسنس معطل کئے جاچکے ہیں لیکن وزارت اطلاعات نے اتھارٹی کے تین ممبران کو شوکاز نوٹسز جاری کر دیئے ہیں، جس سے حکومت کے ان دعووں کی یکسر نفی ہوتی ہے کہ پیمرا آزاد ادارہ ہے، وہ جو بھی فیصلہ کریگا کہ اسے قبول کیا جائیگا۔ لیکن ساتھ ہی اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کیلئے کمیشن کی باتیں کافی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہیں۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے میر شکیل الرحمان سے دوبئی میں ہونے والی ملاقات کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ پہلے اس ملاقات سے انکاری تھے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ حکومت پوری طرح جیو کے ساتھ کھڑی ہے۔ دوسری جانب آئی ایس آئی اور فوج جیو کیخلاف ہے۔ اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ اداروں کے اندر یہ بات چل رہی ہے کہ یہی وہ وقت ہے جس میں میڈیا کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، اگر اب جیو بچ نکلا تو پھر اگلے پچاس سالوں تک میڈیا کسی کے ہاتھ میں نہیں آئیگا۔ لیکن وزیر اطلاعات پرویز رشید کی جیو کو بچانے کی باتیں اداروں میں واضح تقسیم کی نشاندہی کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں جیو کی درخواست کی سماعت نے بھی کئی سوالوں کو جنم دیا ہے، کورٹ رپورٹنگ کرنے والے اکثر صحافی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ سپریم کورٹ جیو کے حق میں فیصلے دیدے گی۔ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، تاہم حکومت اور فوج کی پوزیشن سب کے سامنے عیاں ہوچکی ہیں۔