دہشتگرد، حکومت اور انجام (خصوصی مضمون)
تحریر: تصور حسین شہزاد
لاہور پولیس نے دو ماہ قبل گرفتار کئے جانے والے 8 دہشت گردوں کو گذشتہ ہفتے میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔ سی سی پی او لاہور چوہدری محمد شفیق نے ہنگامی پریس کانفرنس کی اور اس میں پہلے سے پکڑے گئے ان دہشت گردوں کی گرفتاری کا اعلان کر دیا۔ اس پریس کانفرنس میں غیر متوقع پر ایس ایس پی آپریشنز چوہدری عبدالرب کو لاعلم رکھا گیا۔ پریس کانفرنس میں پیش کئے گئے دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی سے بتایا گیا۔ ان دہشت گردوں کے حوالے سے بتایا گیا کہ انہوں نے اہم سرکاری عمارتوں اور غیر ملکی دفاتر پر خودکش حملے بھی کرائے ہیں۔ ان دہشت گردوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے یوتھ فیسٹیول کے ایونٹ میں وزیراعظم نواز شریف کو بھی نشانہ بنانا تھا، جس کی وجہ سے وہ تقریب ملتوی کر دی گئی تھی۔
گرفتار دہشت گردوں سے خودکش جیکٹس، بھاری مقدار میں بارودی مواد، ہینڈ گرینڈ، لیپ ٹاپس، کلاشن کوفیں، پستول اور سینکڑوں گولیاں بھی برآمد ہوئیں۔ پکڑے جانے والے ملزموں میں شفیق شاہ، محمد اعظم ٹریفک وارڈن، ثاقب انجم، عبیداللہ عرف بیدی، محمد آفتاب، قاری مشتاق، حافظ عظیم اور قاری آصف محمود شامل ہیں۔ ملزم شفیق شاہ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ 1992ء میں کالعدم سپاہ صحابہ میں شامل ہوا، آج کل لشکر جھنگوی کے ساتھ منسلک تھا، ان دہشت گردوں نے سینیئر صحافی فہد حسین، دی نیوز کے ایڈیٹر سلیم بخاری، دنیا ٹی وی کے معروف اینکر ڈاکٹر مالک، سٹی فورٹی ٹو ٹی وی چینل کے مالک محسن نقوی، معروف سیاست دان سیدہ عابدہ حسین، سینیئر قانون دان اور شریف خاندان کے وکیل اشتر اوصاف، سابق جج ہائی کورٹ سید زاہد حسین بخاری، کالعدم سپاہ صحابہ کے لدھیانوی گروپ کے خادم حسین ڈھلوں، اسی گروپ کے عثمان قاسمی، سپاہ صحابہ کے ہی قاری سعید ان کا نشانہ تھے۔
دیگر شخصیات جو ان کی ہٹ لسٹ پر تھیں ان میں طاہر محمود اشرفی، پیر ہارون گیلانی، شیعہ اسکالر خانم طیبہ بخاری، شیعہ رہنما اور مسلم لیگ نون کے مشیر حیدر علی مرزا، وقارالحسنین، مشتاق جعفری، صحافی جواد نقوی، شاکر نقوی، شیعہ علماء کونسل کے رہنما توقیر حسین بابا، بابر شاہ، فرحان علی، معروف صحافی سید حسن عسکری، سول جج فیروز والا کچہری اشتر عباس، قائداعظم مسافر خانہ میو ہسپتال کے انچارج محمد یونس، معروف شیعہ اسٹیٹ ڈیلر حاجی ناصر، شیر میانداد قوال، وقار حیدر ایڈووکیٹ، سابق صدر سپریم کورٹ بار عاصمہ جہانگیر سمیت 39 شخصیات شامل ہیں، جن کی یہ دہشت گرد ریکی کرچکے تھے اور انہیں نشانہ بنانا تھا۔ ان شخصیات کے علاوہ غیر ملکی شہری بالخصوص چینی باشندے بھی ان کا ہدف تھے۔ اہم سرکاری دفاتر پر حملوں کی بھی یہ منصوبہ بندی کرچکے تھے۔
لاہور پولیس نے حالیہ چند دنوں میں دہشت گردوں کے 2 بڑے گروہ پکڑے ہیں، پہلا گروہ بھی کوٹ لکھپت جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر قید ہے۔ شمس معاویہ کا ڈرائیور انہیں شناخت بھی کرچکا ہے جبکہ ان دہشت گردوں کے خلاف پولیس کے پاس بھی ٹھوس شواہد ہیں۔ پولیس نے اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ کر دیا ہے۔ اب اس حوالے سے حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ ان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ کالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں کی گرفتاری موجودہ حکومت اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامیوں کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ طالبان کے حامیوں سے پوچھا جائے کہ ان پکڑے جانے والے دہشت گردوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، جو پاکستان کی انتہائی اہم ترین 50 سے زائد شخصیات کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ ان کی ہٹ لسٹ میں شامل تمام افراد اپنی جگہ پر ایک ادارہ ہیں۔ ملک کے لئے ان کی بے پناہ خدمات ہیں۔ اگر یہ 50 سے زائد شخصیات ان کی جارحیت کا نشانہ بن جاتیں تو ملک کو کتنا نقصان ہوتا؟ طالبان کے حامی اب نہیں بولیں گے، کیونکہ ان کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہی نہیں۔ یہ بچارے تو خود کرائے کے دانشور ہیں، جن کو جہاں سے چند سکے ملے، یہ اسی کے گن گانے لگ گئے۔
طالبان ہوں یا القاعدہ، لشکر جھنگوی ہو یا سپاہ صحابہ سب ایک ہی چیز ہیں اور اس کا نام ہے دہشت گردی، یہ تمام کے تمام دہشت گرد ہیں اور دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ ان کی سرکوبی کی جاتی ہے۔ دہشت گرد پرامن فضا میں چین سے نہیں رہ سکتے۔ امن انہیں راس ہی نہیں آتا، ان کے منہ کو خون کی چاٹ لگ چکی ہوئی ہے، یہ چاٹ انہیں انسان نہیں رہنے دیتی بلکہ وحشی بنا دیتی ہے، جو صرف خون کے پیاسے ہوتے ہیں۔ یہ وحشی کل کشمیر میں تھے، وہاں پالیسی بدلی تو انہوں نے افغانستان کا رخ کر لیا، افغانستان میں کچھ امن ہوا تو ان کا رخ شام کی طرف ہوگیا، اب یہ وحشی اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم شام سے ذرا فارغ ہو لیں تو پھر پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ کیسے امن ہوتا ہے۔ یہ امن کے عالمی دشمن ہیں۔ ان کے ساتھ مذاکرات کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے، جو ہماری حکومت کرچکی ہے۔ اب لاہور پولیس نے جن دہشت گردوں کو پکڑا ہے، انہیں عبرت ناک سزا دینے کے ساتھ ساتھ ان کو پناہ دینے والے، ان کے ہمدرد، انکے سرپرست، انکے حامیوں کی بھی تلاش شروع کر دے۔ ان کی بھی سرکوبی کی جائے، تاکہ بُرے کے ساتھ بُرے کی ماں بھی ختم ہو، تاکہ وہ مزید بُرے جنم نہ دے سکے۔