منافع کس کی جیب میں؟ (اسلحہ کی عالمی تجارت پر خصوصی مضمون)
تحریر: محمد علی نقوی
دور حاضر میں اسلحے کی تجارت کو دنیا کی اقتصاد میں اہم مقام حاصل ہے، سالانہ عالمی تجارت کا کم از کم سولہ فیصد، اسلحے کی تجارت سے مختص ہے اور ہر روز دو ارب ڈالر سے زیادہ رقم ہتھیاروں پر خرچ ہوتی ہے۔ اگر سالانہ صرف چالیس ارب ڈالر کی رقم ناخواندگی اور غربت کی مشکلات دور کرنے پر خرچ کی جائے تو ایک دہائی میں ساری دنیا سے جہالت اور غربت نابود اور ختم ہوسکتی ہے۔ ہتھیاروں کے دلالوں اور ہتھیاروں کا سودا کرانے والوں کے لئے جنگ، منافع بخش منڈی ہے۔ پس آج کی دنیا کا جنگ سے عاری اور پاک ہونا ناقابل تصور ہے، اس لئے کہ سیاسی امور اور دنیا کے اہم فیصلوں میں بڑی اسحلہ ساز کمپنیوں کا عمل دخل ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ ان مسائل میں امریکہ دنیا کے دیگر تمام ممالک میں سب سے پیش پیش ہے۔
امریکہ کی اسلحہ ساز، ہتھیار بنانے والی فیکٹریاں اور کمپنیاں اس ملک کے صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم کے اخراجات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔1997ء اور 1998ء میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی پہلے درجہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے انتخابات میں 34 ملین ڈالر خرچ کئے اور سن 2000ء میں ہونے والے انتخابات میں جارج ڈبلیو بش اور ریپبلکن پارٹی کی حمایت میں سنگین اخراجات برداشت کئے۔ عالمی پالیسی انسی ٹیوٹ کے ممتاز محقق "ویلیم ہارٹنگ” اس بارے میں لکھتے ہیں "اسلحہ سازوں کی جانب سے امریکی ریپبلکن کی حمایت بلاوجہ نہیں ہے۔ 1995ء سے یعنی جب سے ریپبلکنز امریکی گانگریس میں برسر اقتدار آئے ہیں، امریکی وزارت جنگ پنٹاگون نے ہر سال پانچ سے دس ارب ڈالر تک کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔
اسلحے کی تجارت کی اہمیت کی ایک وجہ دنیا کے اسٹرٹیجک علاقوں میں کشیدگی اور جنگ کے ساتھ اس کا گہرا ربط ہے، جو اسلحے کی خرید کے لئے بڑی مغربی حکومتوں کے تقاضا پر براہ راست اثرانداز ہوتا ہے اور بسا اوقات ان کی خرید میں مزید اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ مثال کے طور پر 1991ء میں کویت پر عراقی ڈکٹیٹر صدام کے حملے کے واقعے میں امریکہ کی حکومت نے خلیج فارس کی جنگ میں لشکر کشی پر ساٹھ ارب ڈالر خرچ کئے اور اسی طرح بالقان کی جنگ میں امریکہ، یوگو سلاویہ کی سرزمین پر بمباری میں روزانہ 40 سے 100 ملین ڈالر خرچ کرتا تھا۔ یہ جنگیں مغربی دنیا کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے لئے بڑی منافع بخش تھیں۔
عالمی طاقتوں کے علاوہ غیر ترقی یافتہ دنیا میں مشرق وسطی کا علاقہ بھی ہتھیاروں کی بہت بڑی منڈی شمار ہوتا ہے۔ 2013ء میں یورپ اور امریکہ جیسےتوقی یافتہ صنعتی ملکوں میں فوجی اخراجات میں کمی آئی، لیکن ترقی پذیر ممالک اور کشیدگی سے دوچار علاقوں میں فوجی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ مشرق وسطٰی کے علاقے میں سعودی عرب، دنیا میں ساتویں سے چوتھے درجے پر آگیا ہے۔ سعودی عرب نے 2013ء میں67 ارب ڈالر کا بجٹ دفاعی اخراجات کے لئے مختص کیا ہے۔ ممتاز محققہ محترمہ "کارینا سولمیرانو” مشرق وسطٰی میں فوجی اخراجات میں اضافہ ہونے کے اسباب کے بارے میں کہتی ہیں "2013ء میں مشرق وسطٰی میں فوجی اخراجات میں ہونے والے اضافے کا تعلق، زیادہ تر سعودی عرب سے ہے۔ سعودی عرب کے فوجی اخراجات میں تقریباً چودہ فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن بحرین اور عراق میں بھی قابل ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے۔”
مشرق وسطٰی کے علاقے میں جنگی ہتھیاروں میں اضافے کی ایک اور وجہ انکے سیاسی عناد اور دشمنیاں ہیں۔ دور حاضر میں جس قدر بحران، مشرق وسطٰی کے علاقے میں ہے، اتنا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ علاقے کے لئے، مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کی فوجی دھمکیوں کے علاوہ عراق پر امریکہ کے غاصبانہ قبضے اور اس ملک سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد عراق کو بھی سیاسی بحران میں مبتلا کرنا، علاوہ ازیں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کے مابین پنہاں اور آشکارا رقابتوں، اور سرحدی اختلافات کے باعث بہت زیادہ کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ خلیج فارس کے علاقے کے چھ عرب ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور عمان میں سے ہر ایک اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدی اور زمینی مالکیت کے حوالے سے کشیدگی اور اختلافات میں گرفتار ہے، اور برسوں سے یہ بحران بدستور جاری اور باقی ہے۔
دور حاضر میں مشرق وسطٰی کا علاقہ مختلف نظریاتی تنازعات اور ٹکراؤ کے میدان میں تبدیل ہوگیا ہے۔ سلفیوں اور وہابیوں سے وابستہ گروہ، انتہا پسندی، کجروی اور بنیاد پرستانہ رجحانات کے ساتھ اسلام کے نام سے خطے میں غیر اسلامی سرگرمیوں میں مشغول ہیں، اور انہوں نے ان ملکوں میں روایتی حکمرانوں کے سیاسی ہتھکنڈوں کی حیثیت سے علاقے کو اغیار کی مداخلت کے اڈے میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان تمام مسائل نے علاقے کی سکیورٹی کو متاثر کر رکھا ہے، اسی کے ساتھ مغرب کی جانب سے اختیار کی جانے والی ایران فوبیا کی پالیسی بھی، اس علاقے کے ملکوں کے لئے جنگی ہتھیاروں کی خریداری کا باعث بنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل مشرق وسطٰی میں ہتھیاروں کی دوڑ میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطٰی ہتھیاروں کی دوڑ کے بنیادی اور حقیقی عوامل اور اسباب کیا ہیں؟ درحقیقت مشرق وسطٰی کے علاقے میں پیدا ہونے والے بحران کے اسباب، اس علاقے سے باہر اور سرحد پار سے فراہم کئے گئے ہیں۔ قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے دوران، مغربی طاقتوں اور خاص طور سے امریکہ کے سیاسی، اقتصادی، سکیورٹی، فوجی
مفادات اور مشرق وسطٰی کے علاقے کے قدرتی انرجی کے ذخائر پر غاصبانہ قبضہ، اس علاقے کو پرتشدد علاقے میں تبدیل کرنے کے بنیادی عوامل شمار ہوتے ہیں۔ مشرق وسطٰی کے اکثر زمینی اور سرحدی مسائل و مشکلات، بیسویں صدی کی استعماری طاقتوں اور خاص طور سے برطانیہ کی دین ہیں۔
اسی طرح اس علاقے میں پیدا ہونے والے قومی، نسلی اور ثقافتی مسائل، استعماری طاقتوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہیں۔ جس کی واضح مثال، مغربی حکومتوں کی جانب سے اسرائیل کی غاصب حکومت کی بے دریغ حمایت ہے۔ دور حاضر میں صہیونی حکومت مشرق وسطٰی کے علاقے میں ہتھیاروں کی دوڑ کی بنیادی وجہ بنی ہوئی ہے۔ غاصب صہیونی حکومت کا فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ، بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی عدم پابندی اور دو سو سے زیادہ ایٹمی وار ہیڈز کا حامل ہونا، علاقے کے دیگر ممالک کے ردعمل ظاہر کرنے کا باعث بنا ہے۔ اس لئے تقریباً مشرق وسطٰی کے سبھی ممالک، غاصب صہیونی حکومت کو اپنے لئے ایک قسم کا خطرہ تصور کرتے ہیں۔
اسرائیل کے مسئلے کے علاوہ جو امر مشرق وسطٰی کے علاقے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی کا باعث بنا ہے، وہ ڈکٹیٹر حکومتیں ہیں، جو اپنے اقتدار کے تحفظ میں کوشاں ہیں۔ مشرق وسطٰی کی اکثر حکومتیں اور خاص طور پر خلیج فارس کے عرب ممالک میں موروثی غیر جمہوری جکومتیں ہیں، ان ممالک کی ماہیت اور ان کا سیاسی نظام کچھ اس قسم کا ہے کہ فوج سے ان کی وابستگی، ان کا ذاتی حصہ شمار ہوتا ہے، اور اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ حکومتیں زیادہ تر مغربی طاقتوں کی مدد سے اقتدار میں آئی ہیں۔ اسی لئے ان کی ہتھیاروں کی فروخت کی پالیسی ہمیشہ مغربی طاقتوں کے ایجنڈے میں شامل رہی ہے۔
مشرق وسطٰی کے اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ مشرق وسطٰی میں جاری ہتھیاروں کی دوڑ کے، مختصر مدت اور طویل مدت میں علاقے اور دنیا کے لئے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ مشرق وسطٰی میں ہتھیاروں کی دوڑ، اور جدید ہتھیاروں کی فروخت، جو حالیہ برسوں کے دوران وسیع پیمانے پر اس علاقے کے ملکوں کے اختیار میں دیئے گئے ہیں، نے ان ملکوں کو ہتھیاروں کے گودام میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ ممالک علاقے میں وسیع پیمانے پر جنگی اقدامات کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور وسیع پیمانے پر انسانی المیے وجود میں آنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
کیا یہ اعداد و شمار آج کی انسانیت کو چونکا دینے والے نہیں ہیں کہ 2013ء میں دنیا میں فوجی اخراجات 1750 ارب ڈالر تھے۔ امریکہ کا فوجی بجٹ سابقہ برسوں کی مانند 640 ارب ڈالر تھا اور یہ ملک اپنے فوجی بجٹ میں اضافے کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ امریکہ، چین، روس اور سعودی عرب، کا گذشتہ سال کا فوجی بجٹ بالترتیب 188، 88 اور 67 ارب ڈالر تھا، لیکن 2013ء میں دنیا میں جنگی ہتھیاروں کے سب سے بڑے تاجر ممالک، امریکہ، روس، جرمنی، چین اور فرانس تھے۔ دنیا میں اسلحے کی کل تجارت کا سب سے زیادہ حصہ، ان ممالک نے اپنے سے مختص کر رکھا ہے۔ ان اعداد و شمار کو سن کر ہر باشعور شخص کےذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ان جنگی ہتیاروں سے استفادہ کرنے والے کون لوگ ہیں؟ اور اسلحہ کی تجارت سے ہونے والا منافع کن لوگوں کی جیب میں جاتا ہے؟ اور دنیا کو جنگ میں مصروف رکھنا کس کے مفاد میں ہے۔؟